افغان طالبان کا حملے جاری رکھنے کا اعلان

افغان خواتین کابل کی ایک پہاڑی پر واقع تفریحی مقام پر جمع ہیں۔

طالبان کے سربراہ کا یہ بیان مسلمانوں کے تہوار عیدالفطر کے موقع پر جاری کیا گیا ہے جو افغانستان میں متوقع طور پر جمعرات کو منائی جائے گی۔
افغان طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر نے آئندہ سال ہونے والے صدارتی انتخاب کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ افغانستان سے تمام غیر ملکی فوجوں کی واپسی تک ان کی جنگ جاری رہے گی۔

منگل کو ذرائع ابلاغ کو جاری کیے جانے والے ایک بیان میں طالبان کے سربراہ نے 2014ء میں ہونے والے افغانستان کے صدارتی انتخاب کو "دھوکہ اور ڈرامہ" قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ "ہمارے مقدس لوگ اس کا حصہ نہیں بنیں گے"۔

افغان طالبان نے اس سے قبل ہونے والے دو صدارتی انتخابات میں بھی شرکت نہیں کی تھی لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ انہوں نے اعلانیہ انتخابات کا بائیکاٹ کیا ہے۔

طالبان کے سربراہ کا یہ بیان مسلمانوں کے تہوار عیدالفطر کے موقع پر جاری کیا گیا ہے جو افغانستان میں متوقع طور پر جمعرات کو منائی جائے گی۔

ملا عمر افغانستان میں 1996ء سے 2001ء تک رہنے والی طالبان حکومت کے سربراہ تھے اور انہیں اب بھی طالبان جنگجو 'امیر المومنین' کے لقب سے پکارتے ہیں۔

افغانستان پر امریکی حملے اور اس کے نتیجے میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے ملا عمر روپوش ہیں لیکن ان کی جانب سے ہر سال عید کے موقع پر افغان عوام کے نام پیغام جاری کیا جاتا ہے۔

طالبان رہنما نے اپنے بیان میں قطر کے دارالحکومت دوحا میں اپنی تحریک کے سیاسی دفتر کے قیام کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے قیام کا مقصد غیر ملکی افواج کے افغانستان سے انخلا اور "اسلامی اصولوں پر قائم" حکومت کے قیام کی جانب پیش رفت کرنا ہے۔

ملا عمر نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ ان کی تحریک اقتدار کو اپنے تک ہی نہیں رکھنا چاہتی بلکہ "اسلام اور ملک سے محبت کرنے والے، چاہے وہ جو بھی ہوں، جس علاقے سے بھی تعلق رکھتے ہوں اورکسی بھی نسل سے ہوں، اس سرزمین پر ان کا حق تسلیم کرتی ہے"۔

طالبان رہنما نے اپنے بیان میں بین الاقوامی امدادی اداروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وہ مسلمانوں کو "غیر اسلامی طریقوں کی دعوت نہ دیں" تو وہ افغانستان میں آزادی کے ساتھ اپنی سرگرمیاں انجام دے سکتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان رہنما کا یہ بیان مئی میں افغانستان کے شہر جلال آباد میں عالمی امدادی تنظیم 'ریڈ کراس' کے دفتر پر ہونے والے حملے کے تناظر میں ہے۔

مذکورہ حملے کے بعد 'ریڈ کراس' نے افغانستان میں اپنی سرگرمیاں انتہائی محدود کردی تھیں۔ حملوں کا الزام طالبان پر عائد کیا گیا تھا لیکن برطانوی خبررساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق بعض نیٹو حکام کا خیال ہے کہ حملہ کرنے والے طالبان جنگجووں نے یہ کاروائی اپنے کمانڈروں کی اجازت کے بغیر کی تھی۔