طالبان کا غزنی شہر پر قبضے کا دعویٰ، لشکر گاہ میں بھی شدید جھڑپیں

حکام کا کہنا ہے کہ غزنی شہر کے وسط میں طالبان کے پرچم لہرا رہے ہیں اور کئی گھنٹوں کی جھڑپوں کے بعد لڑائی تھم گئی ہے۔

افغان طالبان نے ملک کے دسویں صوبائی دارالحکومت پر قبضے کا دعویٰ کیا ہے جب کہ ہلمند صوبے کے دارالخلافہ لشکر گاہ میں شدید جھڑپیں جاری ہیں۔

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق مقامی حکام نے طالبان کے دعوے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگجوؤں نے جمعرات کو غزنی صوبے کے دارالحکومت غزنی پر قبضہ کر لیا ہے تاہم شہر کے نواحی علاقوں میں جھڑپیں اب بھی جاری ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ غزنی شہر کے وسط میں طالبان کے پرچم لہرا رہے ہیں اور کئی گھنٹوں کی جھڑپوں کے بعد لڑائی تھم گئی ہے۔

اطلاعات کے مطابق غزنی کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد طالبان ایک ہفتے کے دوران افغانستان کے 34 میں سے 10 صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر چکے ہیں۔

تاہم افغانستان کی مرکزی حکومت اور سیکیورٹی فورسز نے فوری طور پر غزنی کے طالبان کے قبضے میں جانے کی تصدیق نہیں کی ہے۔

غزنی افغان دارالحکومت کابل سے لگ بھگ 130 کلو میٹر دوری پر ہے۔

SEE ALSO: خدشہ ہے کہ طالبان 90 دنوں میں کابل پر قبضہ کر سکتے ہیں، انٹیلی جنس رپورٹ

کابل سے ملحقہ صوبوں میں حالیہ چند روز کے دوران جھڑپوں میں شدت آنے کے بعد شہریوں نے دارالحکومت میں پناہ لینا شروع کر دی ہے۔ ہزاروں متاثرہ افراد کابل میں پارکس اور کھلے مقامات پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

دوسری جانب افغان فورسز اور طالبان کے درمیان ہلمند صوبے کے دارالحکومت لشکر گاہ میں شدید لڑائی جاری ہے جہاں جنگجوؤں نے جمعرات کو پولیس ہیڈ کوارٹر پر قبضہ کر لیا ہے۔

ہلمند صوبے سے رکن اسمبلی نسیمہ نیازی نے بتایا ہے کہ بعض پولیس اہلکاروں نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں جب کہ بعض نے گورنر آفس کے قریب پناہ لے لی ہے اور یہ علاقہ اب تک سرکاری فورسز کے کنٹرول میں ہے۔

البتہ طالبان نے افغان فورسز کے ہتھیار ڈالنے کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی ہے۔​

لڑائی کے دوران افغان سیکیورٹی فورسز نے لشکر گاہ کے مختلف مقامات پر بمباری کی۔

SEE ALSO: امریکہ میں افغانستان کی صورتِ حال پر مایوسی بڑھنے لگی، کابل حکومت کو ذمہ داری لینے پر زور

نسیمہ نیازی نے فضائی کارروائی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ فضائی کارروائی میں سویلین ہلاک و زخمی ہو رہے ہیں۔

ان کے بقول، طالبان مقامی شہریوں کے گھروں میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور حکومت کی جانب سے شہریوں کی زندگیوں کا خیال کیے بغیر فضائی حملے کیے جا رہے ہیں۔

ادھر امریکہ نے طالبان کی پیش قدمی اور افغان سیکیورٹی فورسز کی پسپائی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے بدھ کو کہا ہے کہ ملک کے مستقبل کی ذمہ داری افغان رہنماؤں کے کاندھوں پر ہے۔ البتہ افغان سیکیورٹی فورسز کے پاس وہ سب کچھ ہے جس کی انہیں ضرورت ہے۔

امریکہ کے محکمۂ دفاع کے عہدیدار بھی بارہا کہہ چکے ہیں کہ امریکہ کی تربیت یافتہ افغان سیکیورٹی فورسز کے اندر اہلیت ہے کہ وہ طالبان کے حملوں کا سخت جواب دیں۔

اس خبر میں شامل بیشتر معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔