افغان طالبان نے اس امکان کو رد کیا ہے کہ افغانستان میں داعش سمیت دیگر شدت پسند گروہوں سے مقابلے کے لیے وہ امریکہ کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے ہفتے کو طالبان اور امریکی وفد کے درمیان ہونے والی ایک ملاقات کے بعد کیا۔
خیال رہے کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد امریکہ اور طالبان حکومت کے وفود کی ہفتے کو قطر میں پہلی مرتبہ بات چیت ہوئی ہے جس میں افغانستان سے امریکی شہریوں کے انخلا، انسدادِ دہشت گردی سمیت دیگر اُمور پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔
البتہ واشنگٹن کی جانب سے دوحہ مذاکرات کے حوالے سے تاحال کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ تاہم امریکی محکمۂ خارجہ نے جمعے کو تصدیق کی تھی کہ امریکی وفد طالبان کے ساتھ دو روزہ مذاکرات میں شریک ہو گا۔
امریکہ نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ یہ مذاکرات طالبان حکومت تسلیم کیے جانے کی تمہید نہیں ہیں۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے افسران، امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی اور خفیہ ایجنسیوں کے اہل کار مبینہ طور پر ان مذاکرات میں شریک ہیں۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کو دیے گئے انٹرویو میں سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ہم داعش کا خود مقابلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، لہٰذا ہمیں امریکہ کے کسی قسم کے تعاون کی ضرورت نہیں ہے۔
امریکی وفد سے مذاکرات کے لیے طالبان کا وفد جمعے کو قطر روانہ ہوا تھا۔
Today a senior delegation of IEA led by the Foreign Minister Mawlawi Amir Khan Muttaqi left for Qatar.The delegation will hold discussions with Qatari officials as well as representatives of other countries about current political situation and relations. pic.twitter.com/Qsul8YhlfH
— Abdul Qahar Balkhi (@QaharBalkhi) October 8, 2021
خیال رہے کہ شدت پسند گروپ داعش نے افغانستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات کی ذمے داری قبول کی ہے جس میں قندوز میں شیعہ مسلمانوں کی ایک مسجد میں خود کش حملہ بھی شامل ہے جس میں 46 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
مشرقی افغانستان میں 2014 سے متحرک دولتِ اسلامیہ داعش، اب تک افغانستان میں شیعہ مسلمانوں کے خلاف متعدد کارروائیاں کر چکی ہے جب کہ امریکہ بھی اسے اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا نیا دور ایسے وقت میں شروع ہوا ہے جب حال ہی میں امریکی نائب وزیرِ خارجہ وینڈی شرمن پاکستان کا دورہ مکمل کر کے واپس روانہ ہوئی ہیں۔
اس دورے میں افغانستان کے معاملے پر خاص طور سے بات چیت ہوئی تھی اور پاکستانی حکام نے ایک بار پھر امریکہ پر زور دیا تھا کہ وہ طالبان کے ساتھ بات چیت کرے اور وہاں تیزی سے خراب ہوتی ہوئی معاشی صورتِ حال کے پیشِ نظر افغانستان کے اربوں ڈالرز کے منجمد اثاثے بحال کرے۔
ہفتے کو عرب نشریاتی ادارے 'الجزیرہ' نے رپورٹ کیا تھا کہ طالبان اور امریکی وفد کے مذاکرات کے دوران افغانستان میں طالبان حکومت کے قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ افغان سینٹرل بینک کے ذخائر پر سے پابندی ہٹائے۔
جنگ کے باعث نقل مکانی کرنے والے افغان شہریوں کی واپسی
دریں اثنا افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی کے دوران اپنا گھر بار چھوڑنے والے افغان شہریوں کی گھروں کو واپسی کا عمل بھی شروع کر دیا گیا ہے۔
طالبان حکومت میں مہاجرین سے متعلق اُمور کے انچارج محمد ارسا خروٹی نے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کو بتایا کہ افغانستان میں جنگ و جدل کے باعث بے گھر ہونے والے 13 لاکھ شہریوں کو واپس بھیجنے کے لیے وسیع تر انتظامات درکار ہیں جس کے لیے طالبان کے پاس فنڈز کی کمی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اب تک طالبان نے ایک ہزار سے زائد بے گھر خاندانوں کو اُن کے گھروں تک پہنچایا ہے۔
اس خبر کے لیے بعض معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔