افغانستان میں طالبان حکومت نے مبینہ طور پر طالبات کے ایک گروپ کو یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرنے کے لیے دبئی جانے سے روک دیا ہے۔
وائس آف امریکہ کے ایاز گل کی رپورٹ کے مطابق اماراتی کاروباری شخصیت خلیفہ الحبتور نے یونیورسٹی آف دبئی کے اشتراک سے 100 افغان طالبات کو یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرنے کے لیے اسپانسر کیا تھا۔
الحبتور نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ایکس' (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک ویڈیو میں بتایا کہ اُنہیں بے چین کرنے والی یہ خبر ملی ہے کہ طالبان حکام نے بدھ کی صبح ان طالبات کو کابل ایئرپورٹ پر جہاز میں سوار ہونے سے روک دیا ہے۔
خیال رہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت نے گزشتہ برس دسمبر میں ایک حکم نامہ جاری کر کے یونیورسٹیز میں خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد کر دی تھی۔
طالبان نے اس سے قبل ساتویں سے بارہویں جماعت کی طالبات کو بھی اسکول جانے سے روک دیا تھا۔ اس فیصلے کی امریکہ سمیت عالمی برادری نے شدید مذمت کی تھی۔
I am unable to express the disappointment I feel now as The Afghan female students, whom I had provided an educational scholarship in collaboration with the @uniofdubai presented by Dr. Eesa Al Bastaki @ebastaki, were unfortunately unable to reach #DubaiAirport this morning to… pic.twitter.com/gJK9dB2yTf
— Khalaf Ahmad Al Habtoor (@KhalafAlHabtoor) August 23, 2023
الحبتور گروپ کے بانی اور چیئرمین خلیفہ الحبتور کا شمار امارات کی بڑی اور کامیاب کاروباری شخصیات میں ہوتا ہے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ "یہ مایوسی ظاہر کرنے کے لیے اُن کے پاس الفاظ نہیں ہیں۔
خلیفہ الحبتور کا کہنا تھا کہ آج وہ بہت اُداس ہیں کیوں کہ وہ ان طالبات کے یونیورسٹی میں داخلے، رہائش، ٹرانسپورٹ اور سیکیورٹی کا بندوبست کر چکے تھے۔
اُن کا کہنا تھا کہ افغان حکام نے بغیر کسی عذر کے ناانصافی کرتے ہوئے ان خواتین کو بنیادی حق سے محروم کیا ہے۔ یہ انسانی اقدار، مساوات اور تعلیم کے لیے بڑا دھچکہ ہے۔
اُنہوں نے اپنی ویڈیو میں ایک طالبہ کا آڈیو پیغام بھی شیئر کیا ہےجس میں طالبہ کہہ رہی ہیں کہ "ہم اس وقت ہوائی اڈے پر موجود ہیں، لیکن ہمیں دبئی جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی، حتیٰ کے محرم کے ساتھ سفر کرنے والی لڑکیوں کو بھی روک دیا گیا ہے۔"
طالبہ نے مزید کہا کہ "جب وہ سٹوڈنٹ ویزا اور ٹکٹ دیکھتے ہیں تو وہ ہمیں اجازت نہیں دیتے۔ مجھے نہیں معلوم کہ کیا کرنا ہے۔ براہ کرم ہماری مدد کریں، ہم بہت پریشان ہیں۔"
Your browser doesn’t support HTML5
اماراتی تاجر نے کہا کہ "میں تمام متعلقہ فریقوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ فوری طور پر آگے بڑھیں اور ان طالبات کی مدد کریں۔"
طالبان حکام نے ان الزامات پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ تاہم سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر الحبتور کی پوسٹ پر سینکڑوں صارفین نے ان کا شکریہ ادا کیا ہے اور یہ کوشش جاری رکھنے کی درخواست کی ہے۔
ممتاز صحافی سمیع یوسف زئی نے لکھا کہ ہم آپ کی کوششوں کو سراہتے ہیں، آپ انہیں پاکستان بھیج دیں، یہاں سے وہ امارات جا سکیں گی۔
Sir send them to Pakistan and from Pk all of them will be able to take-off to UAE .. appreciate your efforts .
— Sami Yousafzai (@SamiYousafzaii) August 23, 2023
خود کو افغان یوتھ کی نمائندہ کہنے والی ایک صارف نے ان کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ اپنی کوشش کو ترک نہ کریں اور ان کے دبئی جانے کو یقینی بنائیں۔
Thank you for your efforts and investment. Please don%27t give up on these girls. Let%27s ensure they make it to Dubai.
— Shkula Zadran ښکلا ځدراڼ 🇦🇫 (@ShkulaZadran) August 23, 2023
اٹلانٹک کونسل کے سینئر فیلو عمر صمد نے اس کو بدقسمتی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم سے کبھی دستبردار نہ ہوں خاص طور پر جب اسے روکا جائے۔
Very unfortunate. Do not give up on education, especially when denied.
— Omar Samad (@OmSamad) August 23, 2023
ایک اور صارف کا کہنا تھا کہ قطر کو اس معاملے میں مداخلت کرنی چاہیے جہاں طالبان نمائندوں کا دفتر ہے۔
Qatar, with representative offices of Taliban, ought to step in.
— Anonymous 🕗 (@prasunchat) August 23, 2023
ایک اور صارف، صحافی نیلوفر ایوبی نے تاریخ میں حق کی جانب کھڑے ہونے پر الحبتور کا شکریہ ادا کیا ہے۔
Thank you for Standing on the right side of the history!
— Nilofar Ayoubi 🇦🇫 (@NilofarAyoubi) August 23, 2023
طالبان نے افغان خواتین کے غیر ملکی سفر پر پابندی عائد کر رکھی ہے جب تک کہ ان کے ساتھ خاندان کا کوئی فرد نہ ہو۔ انہوں نے بین الاقوامی امدادی گروپوں کی خواتین افغان عملے سمیت بہت سی خواتین کو کام کی جگہوں سے بھی روک دیا ہے۔