افغانستان کے حکمران طالبان نے اقوامِ متحدہ کی جانب سے ایک بار پھر اس مطالبے کو مسترد کردیا ہے جس میں خواتین کے کام کرنے اور تعلیم کے حصول کی بندش کےاحکامات واپس لینے پر زور دیا گیا تھا۔ طالبان نے اس بات پر اصرار کیا ہے کہ ان کی یہ کوشش ہے کہ 'تمام امور' کو اسلامی قوانین اور شریعت پر عمل کے نکتۂ نظر سے دیکھا جائے۔
طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ''اسلامی امارات کی یہ ذمے داری ہے کہ عوام اور مذہب کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ملک میں شریعت کے خلاف عمل کی اجازت نہ دی جائے۔‘‘
انہوں نے یہ بیان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 15 رکنی تنظیم کی جانب سے جمعے کے روز ہونے والے نجی اجلاس کے 'شدید اظہار تشویش' پر دیا ہے جس میں سلامتی کونسل نے کہا تھا کہ اگست 2021 میں افغانستان میں اقتدار پر قبضے کے بعد طالبان نے خواتین پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
اپنے رد ِعمل میں ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ طالبان کی حکومت سلامتی کونسل کی جانب سے اظہارِ تشویش کو سمجھ سکتی ہے۔
SEE ALSO: افغانستان:خواتین امدادی کارکنوں پر پابندی سے60 لاکھ افراد کو قحط کا خطرہان کا کہنا تھا کہ ''تمام ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کو ہماری قوم کے مذہبی تقاضوں کو سمجھنا ہوگا اور انہیں چاہیے کہ وہ انسانی معاملات اور امداد کو سیاست سے منسلک نہ کریں۔ اپنے مذہبی اصولوں اور اقدار کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم کسی بھی شعبے میں تعاون پر تیار ہیں۔‘‘
طالبان نے افغانستان پر اقتدار حاصل کرنے کےبعد سے خواتین کو زندگی کے تقریباً تمام ہی شعبوں سے الگ کر رکھا ہے، ان پر ثانوی اور یونیورسٹی کی تعلیم کے دروازے بند کردیے گئے ہیں، انہیں پارکس، جم اور حماموں وغیرہ میں جانے سے روک دیا گیا ہے۔ طالبان نے زیادہ تر سرکاری ملازم خواتین کو بھی گھروں پر رہنے کا پابند کردیاہے۔
گزشتہ ماہ سخت گیر طالبان حکمرانوں نے افغان خواتین کو غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ کام کرنے سے روک دیا تھا۔
طالبان نےاس اقدام کی وجہ یہ بتائی ہے کہ این جی اوز اسلامی حجاب پہننے یا شریعت کی دیگر ہدایات کی پابندی کا لحاظ نہیں رکھ رہی ہیں۔ اس اقدام پر دنیا بھر سے شدید مذمت کی گئی اور انتباہ کیا گیا کہ مشکل کے شکار ملک کو پہلے ہی انسانی بحران درپیش ہے جس بنا پر صورت حال بدتر رخ اختیار کرے گی۔
I am back in Afghanistan as we were forced to stop all aid to people in need on 24 Dec. due to the Taliban ban on female NGO workers. NRC%27s 469 female colleagues are essential for our aid to 700.000 Afghans. We must be allowed to resume work with all staff, or lives will be lost. pic.twitter.com/HY4c8FqbPM
— Jan Egeland (@NRC_Egeland) January 8, 2023
جمعے کے روز بند کمرے کے اجلاس میں سلامتی کونسل کے درجن بھر ارکان نے شرکت کی جن میں امریکہ، برطانیہ فرانس، جاپان، مالٹا، سوٹزرلینڈ اور متحدہ عرب امارات بھی شامل ہیں، ان کی جانب سے ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا جس میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ خواتین کو افغان معاشرے کے تمام شعبوں شراکت دی جائے۔
کونسل کے 11 ارکان کی جانب سے بیان دیتے ہوئےجاپان کے سفیر اور سلامتی کونسل کے موجودہ صدر، کامی ہیریو اشیکانے نے کہا ہے کہ ہم طالبان پر زور دیتے ہیں کہ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف ظالمانہ احکامات فوری طور پر واپس لیے جائیں۔