افغانستان حکام کا کہنا ہے کہ ہفتے کے روز ہونے والے بم ھماکے میں ایک اعلیٰ افغان فوجی کمانڈر ہلاک جب کہ کم از کم تین افراد زخمی ہوئے، جن میں ایک مقامی صحافی شامل ہے۔
ایک اور خبر کے مطابق، ملک کے جنوب مشرقی علاقے میں بظاہر ایک ڈرون حملہ ہوا جس میں کم از کم چھ شہری ہلاک ہوئے، جن میں ایک نوزائیدہ بچہ بھی شامل ہے۔
صوبہ ہلمند میں سڑک کنارے ہونے والے اس بم حملے کی ذمے داری طالبان نے قبول کی ہے، جہاں کے زیادہ تر اضلاع کا کنٹرول یا تو باغی گروپ کے پاس ہے یا پھر وہاں ان کا اثر و رسوخ ہے۔
صوبائی پولیس کے ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صحافیوں کے ایک گروپ کے ہمراہ فوج کے سرحدی دستے کے کمانڈر، جنرل ظاہر گل مُقبل کشیدگی کے شکار ضلع مارجا جا رہے تھے، جب سڑک کنارے نصب کیا گیا بم پھٹا، جس سے قافلہ اس کی زد میں آیا۔ وہ انسداد دہشت گردی کی جاری کارروائی کا معائنہ کرنے جا رہے تھے۔
محمد زمان ہمدرد نے کہا ہے کہ ہلاک ہونے والا جنرل فوجی کارروائی کی نگرانی کر رہے تھا۔
انھوں نے مزید بتایا کہ تین سیکیورٹی اہل کار اور افغانستان کے قومی دھارے کے 'شمشاد ٹیلی ویژن' سے تعلق رکھنے والے ایک رپورٹر زخمیوں میں شامل ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ صحافی، سردار محمد سروری شدید زخمی ہیں۔
طالبان کے بیان میں کہا گیا ہے کہ حملے میں مُقبل کے دو محافظ بھی ہلاک ہوئے۔ عمومی طور پر باغی گروپ ہلاک و زخمیوں کے اعداد بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔
ہلمند افغانستان کا سب سے وسیع و عریض صوبہ اور افیون پیدا کرنے والا خطہ ہے۔
بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے نگران اداروں نے کہا ہے کہ صحافیوں کے لیے یہ دنیا کا ایک خطرناک ترین ملک ہے۔
دریں اثنا، جنوب مشرقی صوبہ خوست کے مقامی سیاست دانوں اور اہل کاروں نے ہفتے کے روز اس بات کی تصدیق کی ہے کہ حالیہ عرصے کے دوران ان کے علاقے میں ہونے والے ایک مشتبہ ڈرون حملے میں کم از کم چھ سویلین ہلاک ہوئے، جن میں سے ایک نوزائیدہ بچہ تھا۔
ایک مقامی قبائلی رہنما، گل مرجان فاروق زئی نے وائس آف امریکہ کی افغان سروس کو بتایا کہ ہلاک و زخمی ہونے والے ایک ہی خاندان کے فرد ہیں، جو صوبائی دارالحکومت کے ایک اسپتال سے واپس جا رہے تھے، جب بغیر پائلٹ کے ایک طیارے سے چلائے گئے میزائلوں کی زد میں آئے، جن سے ان کی گاڑی تباہ ہو گئی۔ انھوں نے بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں دو خواتین اور دو بچے تھے، جن میں ایک چھوٹی عمر کا بچہ بھی شامل ہے۔
صوبائی حکومت کے ترجمان، طالب منگل نے تصدیق کی ہے کہ علاقے میں "دو روز قبل'' ایک گاڑی حملے کی زد میں آئی، لیکن انھوں نے مزید تفصیل نہیں بتائیں۔ منگل نے کہا کہ واقعے کی چھان بین جاری ہے۔ تاہم، انھوں نے یہ نہیں بتایا آیا یہ حملہ افغان افواج یا ان کے بین الاقوامی پارٹنرز نے کیا تھا۔
گذشتہ اتوار کو مغربی افغان صوبہ فرح میں فضائی کارروائی کے دوران کم از کم نو سولین ہوئے جب کہ متعدد زخمی ہوئے۔ ان کے رشتہ داروں اور مکینوں کے مطابق، یہ حملہ اس وقت ہوا جب نماز عشا ادا کرنے کے بعد وہ مسجد سے باہر نکل رہے تھے۔