اقوام متحدہ کی پیر کے روز شائع کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان غیر شادی شدہ یا ان افغان خواتین پر ،جن کا کوئی مرد سر پرست نہیں ہے ، ملازمت ، سفر اور صحت کے مراکز تک رسائی پر پابندی لگا رہے ہیں ۔
رپورٹ کے مطابق، ایک واقعے میں اخلاقیات کے نفاذ سے متعلق وزارت کے عہدے داروں نے یہ کہتے ہوئے کہ کسی غیر شادی شدہ خاتون کے لیے ملازمت کرنا مناسب نہیں ہے، ایک خاتون کو مشورہ دیا کہ اگر وہ صحت کے کسی مرکز میں اپنی ملازمت جاری رکھنا چاہتی ہے تو شادی کر لے۔
اپنی تازہ سہ ماہی رپورٹ میں،جو گزشتہ سال اکتوبر سے دسمبر تک کے عرصے کا احاطہ کرتی ہے، افغانستان میں اقوام متحدہ کے معاون مشن نے کہا کہ طالبان ان غیر شادی شدہ افغان خواتین کی پکڑ دھکڑ کر رہے ہیں جن کے ہمراہ گھر سے باہر آمد و رفت یا سفر کے دوران کوئی سرپرست نہ ہو ۔
اس کےعلاوہ طالبان نے ڈریس کوڈ کا نفاذ کیا ہے، اور ان خواتین کو گرفتار کرنا شروع کر دیا ہے جو ان کے تشریح کردہ حجاب کی تعمیل نہیں کرتیں۔
SEE ALSO: طالبان کی پالیسیوں سے لڑکوں کی تعلیم بھی متاثر ہو رہی ہے، ہیومن رائٹس واچافغانستان میں مردوں کی سر پرستی کے بارے میں کوئی سرکاری قوانین نہیں ہیں، لیکن طالبان نے کہا ہے کہ خواتین کسی محرم مرد کے بغیر، گھر سے باہر ایک خاص فاصلے تک آمد و رفت یا سفر نہیں کر سکتیں۔
صوبے پکتیا میں، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، یا اخلاقیات کے نفاذ سے متعلق وزارت نے دسمبر کے مہینے سے خواتین کی محرم کے بغیر صحت کے مراکز تک رسائی کو روک دیا ہے ۔ وزارت کے اہل کار اس پابندی کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے صحت کے مراکز کا دورہ کرتے ہیں۔
طالبان کی اخلاقی پولیس کے طور پر کام کرنے والی وزارت، عوامی مقامات، دفاتر اور تعلیمی مراکز جانے والی خواتین پر چیک پوائنٹس اور معائنوں کے ذریعے حجاب اور محرم کے تقاضے نافذ کر رہی ہے۔
اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ، دسمبر میں، صوبے قندھار میں وزارت کے عہدے داروں نے یہ یقینی بنانے کے لیے ایک بس اڈے کا دور ہ کیا کہ خواتین کسی محرم کے بغیر لمبے فاصلوں تک سفر نہ کریں اور انہوں نے بس ڈرائیورز کو ہدایت کی کہ وہ خواتین کو کسی محرم کے بغیر سفر کرنے کی اجازت نہ دیں۔
SEE ALSO: افغان طالبان کا نیا اقدام؛ این جی اوز میں خواتین کے کام کرنے پر پابندی عائدرپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ اکتوبر میں ہیلتھ کیئر کی تین کارکن خواتین کو اس لیے حراست میں لے لیا گیا تھا کیوں کہ وہ کسی محرم کو ہمراہ لیے بغیر ملازمت پر جا رہی تھیں ۔ انہیں اس کے بعد رہا کیا گیا جب ان کے خاندانوں نے ایک تحریری ضمانت دی کہ وہ ایسا دوبارہ نہیں کریں گی ۔
خواتین کو contraceptives خریدنے کی وجہ سے بھی گرفتار کیا گیا جن پر طالبان کی جانب سے سرکاری پابندی عائد نہیں ہے۔
طالبان نے 2021 میں افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے نافذ کیے گئے سخت اقدامات کے سلسلے میں خواتین کے لیے عوامی زندگی کے بیشتر شعبوں میں پابندی لگا دی ہے اور لڑکیوں کو چھٹی جماعت سے آگے اسکول جانے سے روک دیا ہے ۔ انہوں نے بیوٹی پارلرز بھی بند کر دیے ہیں ۔
SEE ALSO: افغانستان میں بیوٹی پارلرز کی بندش: 'طالبان کی خواتین بھی یہاں آتی تھیں'طالبان کے اعلی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ زیادہ تر غلط فہمیوں پر مبنی ہے اور انہوں نے مشن پر اسلامی قانون یا شریعت کو نظر انداز کرنے اور تنقید کرنے کا الزام عائد کیا۔
مجاہد نے ایک بیان میں کہا کہ،“اب جب افغانستان میں ایک اسلامی حکومت بر سر اقتدار ہے، اسے لازمی طور پر مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے شریعت کے تمام پہلووں کو پوری طرح سے نافذ کرنا چاہیے۔"
SEE ALSO: چہرہ ڈھانپے بغیر مردوں کے سامنے آنے سے خواتین کی وقعت کم ہو جاتی ہے: طالبانترجمان نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ حجاب، مرد کی سرپرستی اور خواتین کی تعلیم اور ملازمت کے دوران صنفی علیحدگی کے ضابطوں کا نفاذ۔
ترجمان نے کہا،” اگر افغانستان میں اقوا م متحدہ کا معاون مشن، یوناما، ان پر تنقید کرتا ہے یا واضح اسلامی قوانین کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی کارروائی سمجھتا ہے تو یہ لوگوں کے عقائد کی توہین ہے۔ “
(اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)