پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے افغان طالبان کی قیادت اور حزب اسلامی سمیت دیگر دھڑوں سے اپیل کی ہے وہ افغانستان میں قیام امن کے لیے کابل حکومت کے مصالحتی عمل میں شرکت کریں۔
پاکستان نے پہلی مرتبہ افغان دھڑوں سے امن و مفاہمت کی کوششوں کا حصہ بننے کی باضابطہ درخواست کی ہے۔
جمعہ کو جاری کیے گئے سرکاری بیان کے مطابق افغان صدر حامد کرزئی نے رواں ہفتے پاکستان سے اپیل کی تھی کہ وہ مصالحتی عمل کو کامیاب بنانے میں اس کی مدد کرے۔ ’’یہ ایک اہم بیان تھا اور پاکستان کا فرض تھا کہ وہ افغان صدر کی اپیل کا مثبت جواب دے۔‘‘
پاکستانی وزیراعظم نے کہا کہ ان کی ’’مخلصانہ اُمید‘‘ ہے کہ طالبان قیادت، حزب اسلامی اور افغانستان کے تمام دیگر سیاسی رہنماء اُن کی اپیل کا مثبت جواب دیں گے اور افغانوں کے مابین مصالحتی عمل میں براہ راست شریک ہونے پر متفق ہو جائیں گے۔
’’یہ ہی وقت ہے کہ افغانستان کی تاریخ میں نیا باب رقم کیا جائے۔ یہ وقت افغان عوام کو اسلام کی حقیقی روح اور افغانوں کی عظیم روایات کے مطابق یکجا کرنے اور مضبوط بنانے کا ہے تاکہ افغانستان میں امن و خوشحالی لائی جا سکے‘‘۔
وزیرِ اعظم گیلانی نے کہا کہ پاکستان کا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں، اور اسلام آباد یہ بھی کہہ چکا ہے کہ مصالحت کے لیے کی جانے والی کوششوں میں بلا تفریق افغانوں کی شمولیت کے لیے ساز گار ماحول پیدا کیا جائے۔
اُنھوں نے اپنے بیان میں بین الاقوامی برادری سے بھی اپیل کی کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے لیے مصالحتی عمل کی حمایت کریں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان اس عمل کی کامیابی کے لیے وہ سب کچھ کرنے کو تیار ہے جو اس کے بس میں ہے۔
افغان صدر حامد کرزئی نے رواں ماہ کے وسط میں اسلام آباد میں پاکستان، افغانستان اور ایران کے سہ فریقی سربراہ اجلاس میں بھی شرکت کی تھی اور اس موقف پر صدر آصف علی زرداری اور ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے بھی انھیں قیام امن کے لیے اپنے ممالک کی مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی تھی۔
صدر کرزئی نے اسلام آباد میں قیام کے دوران سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کی تھیں جن میں مولانا سمیع الحق اور جماعت اسلامی کے رہنماء قاضی حسین احمد بھی شامل تھے۔
افغانوں کی زیرقیادت مصالحتی عمل کی حمایت کرتے ہوئے وزیراعظم گیلانی نے کہا کہ ’’یہ انتہائی ضروری ہے کہ پائیدار سیاسی تصفیے کے لیے افغان عوام کی خواہشات کے مطابق اتفاق رائے کو فروغ دینے کی ضرورت ہے‘‘۔