طالبان باغیوں نے بدھ کے روز مشرقی افغانستان میں گاڑی میں نصب بم دھماکے سے اڑا دیا، جس میں کم از کم تین افراد ہلاک جب کہ 15 زخمی ہوئے۔
افغان اہلکاروں نے بتایا ہے کہ بارودی مواد سے بھری ہموی فوجی گاڑی صوبائی دارالحکومت غزنی میں سیکورٹی حصار کی جانب بڑھ رہی تھی، جسے روکنے کے لیے پولیس نے گاڑی پر راکٹ فائر کیے۔
سیکورٹی کے ایک سینئر اہلکار نے وائس آف امریکہ کی افغان نیوز سروس کو بتایا کہ جھڑپ ہوتے ہی خودکش بم حملہ آور نے بم کو بھک سے اڑا دیا۔
غزنی میں محکمہٴ سیکورٹی کے سربراہ، رمضان علی محسنی نے بتایا ہے کہ دھماکے میں دو پولیس اہلکار اور ایک بچہ ہلاک ہوا، جب کہ امدادی کارکنان نے 15 زخمی افراد کو اسپتال منتقل کر دیا ہے، جن میں 10 سویلین شامل ہیں۔
ایک بیان میں افغان وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ جھڑپ میں مجموعی طور پر چار طالبان حملہ آوروں کو ہلاک کیا گیا۔ لیکن مزید وضاحت نہیں کی۔
طالبان نے خودکش بم حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ طالبان کے خاص ترجمان، ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا ہے کہ دھماکے میں ’’سیکورٹی افواج کے بیسیوں اہلکار ہلاک و زخمی ہوئے‘‘، حالانکہ باغیوں کے اکثر دعوے مبالغہ آرائی پر مبنی ہوتے ہیں۔
تشدد کا یہ تازہ ترین واقع ایسے میں سامنے آیا ہے جب مفاہمت پر مامور امریکی نمائندہ خصوصی، زلمے خلیل زاد بدھ کے روز امریکی سینیٹ کی امور خارجہ کمیٹی کی سماعت میں شریک ہونے والے ہیں۔ وہ کمیٹی کی بند کمرے کی سماعت کے دوران افغان امن عمل اور لڑائی ختم کرنے کی کوششوں کے سلسلے میں ان کی جانب سے طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات کی تفصیل بیان کریں گے۔
خلیل زاد قطر میں باغی نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کے متعدد دور کر چکے ہیں، جہاں طالبان کا باضابطہ سیاسی دفتر قائم ہے۔
دونوں فریقین نے بات چیت کو کلیدی امور پر ’’جاری، لیکن سست روی کی شکار پیش رفت‘‘ قرار دیا ہے۔ تاہم، طالبان نے اپنی کارروائیاں بند کرنے سے انکار کیا ہے جب تک افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کے انخلا سے متعلق امریکہ کے ساتھ سمجھوتا طے نہیں پا جاتا۔