مزار شریف: فوجی تنصیب پر طالبان کا حملہ، گھمسان کی لڑائی جاری

افغان وزارتِ دفاع کے ایک ترجمان، دولت وزیری نے مقامی اخباری نمائندوں سے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ نسبتاً پُرامن صوبہ بلخ کے دارلحکومت میں ہونے والے اس حملے کے دوران کم از کم ایک فوجی ہلاک ہوا

افغان اہل کاروں اور باغی گروہوں نے بتایا ہے کہ افغانستان کے شمالی شہر، مزار شریف کے ایک فوجی اڈے پر سنگین جھڑپیں جاری ہیں، جس سے قبل جمعے کی شام طالبان باغیوں نے اس تنصیب پر دھاوا بول دیا تھا۔

افغان وزارتِ دفاع کے ایک ترجمان، دولت وزیری نے مقامی اخباری نمائندوں سے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ نسبتاً پُرامن صوبہ بلخ کے دارلحکومت میں ہونے والے اس حملے کے دوران کم از کم ایک فوجی ہلاک ہوا۔

اُنھوں نے بتایا کہ قبضہ خالی کرانے کے لیے افغان کمانڈو افواج حملہ آوروں کے خلاف صف آرا ہیں، ایسے میں جب متعدد فوجی زخمی ہوئے ہیں۔

عینی شاہدین نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ حملہ آور دو افغان فوجی گاڑیوں میں سوار ہو کر فوجی تنصیب کے اندر داخل ہوئے۔ افغان ذرائع ابلاغ نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا ہے کہ حملے میں سکیورٹی کے کم از کم 10 اہل کار ہلاک ہوئے ہیں۔ لیکن، علاقے پر قبضہ ہونے کے کئی گھنٹوں بعد بھی افغان حکام نے نامہ نگاروں کو بہت ہی کم اطلاع فراہم کی ہیں۔

تشدد کی اس کارروائی کا سہرا طالبان نے اپنے سر لیا ہے، یہ کہتے ہوئے کہ اپنے جسم پر دھماکہ خیز مواد باندھ کر اُس کے عسکریت پسندوں کے ایک گروپ نے مربوط طریقے سے چھاپہ مارا۔

مقامی ذرائع ابلاغ نے خبر دی ہے کہ حملہ آوروں نے افغان قومی فوج کے اہل کاروں اور فوجیوں کو ہدف بنایا، ایسے میں جب نمازِ جمعہ کی ادائگی کے بعد وہ مسجد سے باہر نکل رہے تھے۔

طالبان کے ترجمان، ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا ہے کہ حملے کا آغاز خودکش کار بم دھماکے سے ہوا، جس کے بعد دیگر حملہ آور' 209 شاہین کور' فوجی صدر دفتر کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوئے۔

افغان فوجی اڈے کے اندر ہزاروں فوجیوں کے گھر ہیں، جو ملک کے کشیدگی کے شکار شمالی علاقوں میں طالبان کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر کارروائیاں کرتے ہیں۔