افغان طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی رواں سال فروری میں امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی "خلاف وزری کے مرتکب ہو رہے ہیں", لیکن امریکہ نے طالبان کے دعویٰ کو "بےبنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ معاہدے کی پابندی کر رہا ہے۔"
طالبان کے ترجمان ذبیع اللہ مجاہد نے اتوار کو ٹوئٹر پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ طالبان معاہدے کے تحت پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی ہونی تھی لیکن ان کے بقول مختلف بہانوں کی وجہ سے طالبان قیدیوں کی رہائی میں تاخیر ہو رہی ہے۔
بیان کے مطابق جنگ بندی کا معاہدہ نہ ہونے کے باوجود طالبان نے امریکہ کے ساتھ طے پانے معاہدے کے بعد افغانستان کے بڑے شہروں میں واقع کابل حکومت کے فوجی مراکز پر حملے نہیں کیے ہیں۔
طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ سال کی نسبت رواں سال طالبان کی حملوں میں کمی ہوئی ہے۔ لیکن طالبان ترجمان کے بقول امریکہ اور اس کے اتحادی اور افغان فورسز نے معاہد ے کے بعد بھی طالبان کے عسکریت پسندوں کے خلاف مبینہ حملے جاری رکھے ہیں، بلکہ طالبان کے زیر کنڑول علاقوں میں بھی سول اہداف کو مبینہ طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔
طالبان نے کہا کہ طالبان کے عسکریت پسندوں کو ان علاقوں میں فضائی کارروائی سے نشانہ بنایا گیا جہاں وہ لڑائی میں مصروف نہیں ہیں، جن میں ہلمند، قندھار، فرح، قندوز، ننگرہار، پکتیا، بدخشان اور بلخ کے علاقے شامل ہیں۔
طالبان نے تنبیہ کی کہ اگر ایسی خلاف ورزیاں جاری رہی تو اس کی وجہ سے بداعتمادی کی فضا پیدا ہو سکتی ہے جس سے ناصرف معاہدے کو نقصان پہنچ سکتا ہے بلکہ ردعمل میں طالبان کی کارروائیوں سے لڑائی میں شدت آئے گی ۔
طالبان نے امریکہ سے قطر میں طے پانے والے معاہدے کی پابندی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ اپنی اتحادی افغان حکومت سے بھی اس معاہدے کی پاسداری کرنے کا کہے۔
ادھر امریکہ نے طالبان کے دعویٰ کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں تعینات امریکی فورسز امریکہ طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی پوری طرح پابندی کر رہی ہیں۔
افغانستان میں تعینات امریکی فوج کے ایک ترجمان سونی لیگٹ نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ امریکہ اس بارے میں واضح ہے کہ معاہدے کے تحت وہ اپنی شراکت دار افغان سیکیورٹی فورسز پر حملے کی صورت میں ان کا دفاع کریں گی۔
USFOR-A has upheld, and continues to uphold, the military terms of the U.S.-TB agreement; any assertion otherwise is baseless. USFOR-A has been clear- we will defend our ANDSF partners if attacked, in compliance with the agreement.
— USFOR-A Spokesman Col Sonny Leggett (@USFOR_A) April 5, 2020
کرنل لیگٹ نے طالبان سے تشدد میں کمی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ افغان عوام کی خواہش ہے کہ تشد میں کمی ہو تاکہ ان کے بقول افغان تنازع کے سیاسی تصفیے کی طرف پیش رفت کی جا سکے۔ کرنل لیگٹ کے بقول امریکہ تمام افغان فریقوں پر ایک بار پھر زور دیتا ہے کہ وہ اپنی توجہ کرونا وائرس کی عالمی وبا سے نمٹنے پر مرکوز رکھیں۔
The TB must reduce violence. A reduction in violence is the will of the Afghan people & necessary to allow the political process to work toward a settlement suitable for all Afghans. We once again call on all parties to focus their efforts on the global pandemic of COVID-19.
— USFOR-A Spokesman Col Sonny Leggett (@USFOR_A) April 5, 2020
یاد رہے کہ امریکہ طالبان معاہدے کے تحت طالبان نے افغانستان میں تعینات امریکی فورسز کے خلاف اپنے حملے روک دیے ہیں، لیکن افغان سیکیورٹی فورسز کے خلاف ان کی عسکری کارروائیاں جاری ہیں۔
طالبان ترجمان کے بقول جب تک بین الافغان مذاکرات کے نتیجے میں امن معاہدے کے تحت جنگ بندی کا معاہدہ طے نہیں پا جاتا، وہ افغان حکومت کے فوجی ہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
یادر ہے کہ فروری کے آخر میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ طالبان معاہدے کے تحت افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے بعد بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہونا تھا۔ معاہدے کے تحت افغان حکومت نے پانچ ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کرنا تھا۔ جس کے بدلے میں طالبان نے بھی افغان حکومت کے ایک ہزار قیدی رہا کرنے ہیں۔
اگرچہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کی رہائی کے لیے رابطے جاری ہیں لیکن ابھی تک بعض معاملات پر اختلافات کی وجہ سے قیدیوں کی رہائی کا عمل شروع نہیں ہو سکا ہے۔