امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدے کا مسودہ 10 ماہ کے مذاکرات کے بعد گردش کر رہا ہے جس کے بعد طالبان اپنی ایک نئی میڈیا مہم میں اپنے سابقہ دور حکومت کو فخریہ انداز میں "کامیابی" کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
افغانستان میں 1996 ء سے 2001 ء تک اقتدار میں رہنے کے دوران وحشیانہ حکمرانی اور پرتشدد حربوں کی وجہ سے طالبان کی عمومی طور پر مذمت کی جاتی رہی ہے۔
اپنے دور اقتدار میں طالبان نے لڑکیوں اور خواتین کو تعلیم تک رسائی دینے سے انکار کیا تھا، اور ٹیلی ویژن سمیت ان کی روز مرہ زندگی پر سخت قوانین لاگو کر دیے تھے۔
طالبان امریکہ کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کرنے کے قریب ہیں جس سے 18 سالہ افغان جنگ کا خاتمہ اور 2020 کے آخر تک امریکی اور اتحادی فوجیوں کے انخلاء کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اس حوالے سے طالبان اب اپنی سابقہ طرز حکمرانی پر نظر ثانی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
پیر کے روز جاری کیے جانے والے ایک بیان میں طالبان کا کہنا ہے کہ’’ افغانستان میں کسی کٹھ پتھلی حکومت یا تنظیم نے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اس انداز میں کام نہیں کیا ہے جس انداز میں اسلامی امارت (طالبان) نے کیا ہے یا کر رہی ہے۔‘‘
یہ سخت گیر گروپ معمول کے مطابق افغانستان میں جمہوری طور پر منتخب حکومتوں کو بیرونی طاقتوں کی" کٹھ پتلی" قرار دیتا ہے۔ افغان حکومت کے نمائندوں کے ساتھ باضابطہ امن مذاکرات کرنے سے طالبان کے انکار کی یہی وجہ ہے۔
واشنگٹن اور اس گروپ کے مابین امن معاہدے کے مسودے کے تحت، طالبان اس چیز کے پابند ہوں گے کہ وہ القاعدہ اور دیگر بین الاقوامی عسکریت پسند گروپوں کو افغانستان سے باہر بین الاقوامی دہشت گرد کارروائیاں کرنے کی اجازت نہ دیں۔ تاہم امریکی نمائندوں کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امریکہ افغان حکومت اور اس کی سیکورٹی فورسز کی حمایت ترک کرنے پر غور کر رہا ہے۔
امریکی اعلیٰ مذاکرات کار زلمے خلیل زاد نے پیر کو اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ، " میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ کسی کو بھی پراپیگنڈے کے ذریعہ خوفزدہ یا بیوقوف نہیں بنایا جانا چاہئے۔ ہم اس وقت اور طالبان کے ساتھ کسی سمجھوتے کے بعد بھی افغان افواج کا دفاع کریں گے۔ تمام فریق اس پر متفق ہیں کہ افغانستان کا مستقبل تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان مذاکرات کی بنیاد پر طے ہو گا۔"
طالبان کا ٹریک ریکارڈ
سخت گیر طالبان حکومت نے، جسے پڑوسی ملک پاکستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سمیت صرف تین ممالک نے تسلیم کیا تھا، غیرقانونی افیون اور پوست کی کاشت میں اپنی سخت گیر پالیسی کی بدولت نمایاں کمی کی تھی۔تاہم اس حکومت کے ناقدین اسے اکثر "قبرستان کے امن" سے تعبیر کرتے تھے۔
امریکی قیادت میں اتحادی فوجوں نے 2001 کے آخر میں القاعدہ کے لیڈروں کو پناہ دینے کا الزام لگاتے ہوئے طالبان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے طالبان نے افغانستان میں برسراقتدار آنے والی ہر حکومت کو امریکہ کی کٹھ پتلی حکومت قرار دیتے ہوئے اس کے ساتھ کوئی بھی امن سمجھوتا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
امریکی فوج کے جائزوں کے مطابق اس وقت ملک کے تقریباً آدھے حصے پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ افغان حکومت نے، جو امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات میں شامل نہیں ہے، متنبہ کیا ہے کہ وہ کسی ایسے امن معاہدے کو قبول نہیں کرے گی جو ملک کے لیے نقصان دہ ہو۔
اس سے یہ خدشہ پیدا ہوا ہے کہ اگر غیر ملکی فوجیں ملک سے نکل جاتی ہیں تو افغانستان 1990 کی دہائی کی خانہ جنگی کی طرف لوٹ سکتا ہے۔
طالبان نے کابل میں حکومت کو ناجائز اور ایک امریکی کٹھ پتلی کے طور پر مسترد کرتے ہوئے اس کے ساتھ کسی بھی امن عمل میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ "یہ صرف افغان معاشرے کے چند طبقے ہی ہیں جنہیں امریکی ہتھیاروں اور ڈالروں کی مدد سے افغانستان پر مسلط کیا گیا تھا۔‘‘
افغان صدر اشرف غنی کے معاونین نے کہا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے معاہدے پر دستخط ہونے سے پہلے اسے کابل کے ساتھ شیئر کرنا ہو گا۔