امریکہ چاہتا ہے کہ کسی بھی امنٕ مذاکرات میں شامل ہونے سے پہلے طالبان القاعدہ کے ساتھ اپنے روابط منقطع کریں اور تشدد اور دہشت گردی کو ترک کر دیں۔ دوسرے طرف طالبان کی قیادت تمام غیر ملکی فوجیوں کے چلے جانے تک کسی قسم کے امن عمل میں شامل نہ ہونے کے اپنے اس موقف پر ڈٹی نظر آرہی ہے ۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر کابل میں صدر حامد کارزئی کی حکومت کے ساتھ کسی قسم کی بات چیت کرنے کے خواہشمند نہیں۔
ماہرین کاکہنا ہے کہ اس صورت حال میں مزید پیچیدگی اس اعلان سے پیدا ہوئی ہے کہ 2009ء میں صدر اوباما کی حکمت عملی کے تحت افغانستان بھیجی گئی اضافی امریکی فوج اگلے سال کے آخر تک کو واپس بلا لی جائے گی ۔ واشنگٹن کی جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے سکول آف ایڈوانسڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ڈاکٹر ولیم زرٹ مین کہتے ہیں کہ اگر ہم انہیں یہ پیغام دیں کہ ہم جا رہے ہیں تو اپنے حریفوں کو کسی مناسب معاہدے پر راضی نہیں کر سکتے ۔
http://www.youtube.com/embed/C4RhVKLbOqs
زرٹ مین کے مطابق زمینی حقائق افغانستان سے فوج ہٹانے کی حکمت عملی کے حق میں نہیں ہیں۔
واشنگٹن کے تھنک ٹینک ہیرٹیج فاؤنڈیشن کے جیمز کرافانوکا کہنا ہےکہ افغانستان میں اتحادی فوج کی کارروائیوں کے ذریعے طالبان پر دباو ڈالنا، اور ان کی جنگ لڑنے کی صلاحیت متاثر کرنا، ُانہیں مذاکرات پر آمادہ کرنے کا ایک بہت اہم حصہ ہو گا۔ان کاخیال ہے کہ افغانستان کو محفوظ بنائے بغیر وہاں سے فوج ہٹانے سے طالبان کی کارروائیوں میں ایک مرتبہ پھر تیزی آ سکتی ہے۔
لیکن واشنگٹن کے ایک دوسرے تھنک ٹینک نیوامریکہ فاؤنڈیشن کے برائي فش مین کہتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ سیاسی عمل کی ابتداء امریکی فوج کے ہٹائے جانے کے منصوبے پر منحصر نہیں۔ان کے خیال میں طالبان کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہے اور یہ کہ بہت سے لوگ طالبان کے ساتھ اس لیے لڑائی میں شامل ہوتے ہیں کیونکہ وہ افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی کے خلاف ہیں۔
طالبان کی قیادت سے مذاکرات کی کوششیں بہت زیادہ کامیاب نہیں رہیں ۔ پچھلے سال قائم کیا گیا افغان امن جرگہ بھی طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔
برائن فش مین کا کہناہے کہ افغانستان میں امن کے قیام کے لیے اس حکمت عملی کی کامیابی امریکہ یا بین الاقوامی کمیونٹی نہیں، بلکہ صرف افغان حکومت اور افغان عوام کے ہاتھ میں ہے۔