مقبرے کے اندر موجود کچھ قبروں پر تو کئی کئی سیلنگ فین بھی لگے ہیں۔ زیادہ پاور والے انرجی سیور روشن ہیں، دروازے بہت ہی خوب صورت ڈیزائن والے اور مہنگی لکڑی سے تیار کردہ ہیں۔ فرش پر بیرون ملک سے منگائے گئے قیمتی ٹائلز لگے ہیں
کراچی —
پچھلے وقتوں کے ایک مورخ کا قول ہے ’دور مغلیہ نے ہندوستان کو تین چیزوں سے نوازا۔۔’ اردو زبان‘،’ مرزا غالب‘ اور’ تاج محل‘۔ لیکن، آج کا مورخ جب بھی کراچی کے قبرستانوں کا ذکر کرے گا، یہ ضرور لکھے گا کہ ’یہاں ایک، ایک قبرستان میں کئی کئی ’تاج محل‘ ہیں۔‘
شاہجہاں کے بنائے ہوئے ’تاج محل‘ کی حقیقت ایک ’مقبرے‘ سے بڑھ کر نہیں۔۔۔ آگرہ کے’ تاج‘ اور کراچی میں بنے تاج ’محلوں‘ میں بھی یہی یکسانیت ہے۔ یہاں بھی انگنت لوگوں نے اپنے پیاروں سے محبت کی یاد میں ایسے ایسے مقبرے بنا رکھے ہیں جنہیں دیکھ کر کہیں عقل حیران ہوجاتی ہے تو کہیں تعجب کی کوئی انتہا نہیں رہتی۔
مثال کے طور پر سخی حسن کے قدیم قبرستان میں ایک ایسا وسیع وعریض مقبرہ بنا ہوا ہے جس کی لمبائی چوڑائی کئی ہزار گز ہوگی۔ تاج محل کی طرح ہی اس مقبرے کا بہت بڑا حصہ سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے۔ تاج محل کی طرح ہی اس کا بھی ایک گول اور بلند و بالا گنبد ہے۔ بہت بڑا صحن ہے جہاں سبزہ اگا ہے، نہایت صاف ستھری روش بنی ہوئی ہیں، 25، 30 قبریں بھی ہیں جو سب کی سب۔۔ سنگ مرمر کی ہیں۔
مقبرے کی دیکھ بھال کے لئے باقاعدہ کئی ملازم ہیں۔ ان ہی ملازمین میں سے ایک ملازم نے وائس آف امریکہ کو اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ کئی برس سے یہاں بہت سے کام کر رہا ہے مثلاً پودوں اور گھانس کو پانی دینا، پانی کی موٹر چلانا، بجلی کے انتظامات، مقبرے کے احاطے میں ہی بنی ہوئی دو منزلہ مسجد کی دیکھ ویکھ، صاف صفائی اور دیگر کئی چیزوں کے انتظامات اسی کا ذمہ ہیں۔ اسی نے یہ انکشاف کیا کہ’شہر کے ہر کونے کی لائٹ چلی جائے تب بھی یہاں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی۔۔اس کے لئے ’خصوصی انتظامات‘ موجود ہیں۔‘
مقبرے کے اندر موجود کچھ قبروں پر تو کئی کئی سیلنگ فین بھی لگے ہیں۔ زیادہ پاور والے انرجی سیور روشن ہیں، دروازے بہت ہی خوب صورت ڈیزائن والے اور مہنگی لکڑی سے تیار کردہ ہیں۔ فرش پر بیرون ملک سے منگائے گئے قیمتی ٹائلز لگے ہیں۔ روشنی اور ہوا کے لئے نہایت نفیس انداز میں کھڑکیاں بھی رکھی گئی ہیں۔ اس کی چوکھٹیں، وارنش، مہنگی لکڑی، اس کا ڈیزائن، شیشہ، نیٹنگ، رنگ و روغن۔۔ سب کچھ اسی انداز کا ہے جیسے کسی علیشان بنگلے کا ہوتا ہے۔
اسی قبرستان میں ایک مقبرہ ایسا بھی ہے جہاں باقاعدہ بجلی کا میٹر لگا ہے۔ قبرستان کی دیکھ بھال پر مامور ایک شخص فرید نے ’وی او اے‘ کو بتایا کہ ’مزار کو روشن رکھنے کے لئے جو بجلی استعمال ہوتی ہے، لواحقین باقاعدگی سے ہر ماہ اس کا بل ادا کرتے ہیں۔‘
ایسا ہرگز نہیں ہے کہ یہ صرف ایک قبرستان میں بنے کسی ایک مقبرے کی بات ہو بلکہ شہر میں موجود تقریباً34قبرستانوں میں ایسے ہی بڑے بڑے مقبرے موجود ہیں۔ نمائندے کی جانب سے کئے گئے مشاہدے سے واضح ہوا کہ پاپوش نگر، طارق روڈ، کلفٹن، یاسین آباد، ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی، میوہ شاہ، لیاقت آباد، گلشن اقبال، جامعہ کراچی، علی باغ، ڈرگ روڈ، ماڈل کالونی، ملیر، دارالعلوم کورنگی، عظیم پورہ، عیسیٰ نگری، لیموں گوٹھ، میٹروول تھرڈ، میاں گوٹھ، نیو کراچی، سائٹ ایریا، پیربخاری، فوجی قبرستان، جنت البقیح، پہلوان گوٹھ، سعود آباد، شاہ فیصل، شانتی نگر ڈالمیا روڈ، اسماعیل گوٹھ، لانڈھی اور محمد شاہ قبرستان نارتھ کراچی سمیت شاید ہی کوئی قبرستان ایسا ہے جہاں لوگوں نے اپنے پیاروں کے مقبروں کو اپنی اپنی حیثیت یا گنجائش کے مطابق اسے ’اچھے سے اچھا‘ بنانے کی کوشش نہ کی ہو۔
کچھ مقبروں پر تو ہر جمعرات کو دینی تہواروں پر اور سالانہ عروس وغیرہ کے موقع پربڑے پیمانے پر لنگر بھی لگتا ہے۔ اس لنگر میں ملنے والے کھانوں پر بھی بہت بڑی بڑی رقمیں خرچ ہوتی ہیں۔ بکرے اور مرغی کا سالن تو عام بات ہے۔ شہر کے بہترین پکوان ہاوٴسز اور نامی گرامی باورچیوں سے یہ کھانے تیار ہوتے اور مزار پر لاکر غریبوں میں مفت تقسیم کردیئے جاتے ہیں، تاکہ مرحوم کی روح کو ثواب پہنچ سکے۔ ۔۔لنگرکے معاملے میں تو آگرہ کا تاج محل بھی پیچھے رہ گیا ہے۔۔۔کہ وہاں اس قسم کی کوئی نیاز نذر نہیں ہوتی۔۔۔نا ہی لنگر لگتا ہے۔
’وی آئی پی‘ قبرستان
جی ہاں۔ کراچی میں دو چار قبرستان ایسے بھی ہیں جنہیں ’وی آئی پی قبرستان‘ کا درجہ دیا جاتا ہے مثلاً ڈیفنس فیز فور گزری کا قبرستان ۔۔ اس کی دیکھ بھال کرنے والے ایک ملازم شاکر خان نے وی او اے کو بتایا ’یہاں بہت سے وی آئی پی محو خواب ہیں جیسے سلیم ناصر، ملکہ ترنم نورجہاں، شفیع محمد، رضوان واسطی، طاہرہ واسطی، ابراہیم نفیس، سید کمال، چوہدری اسلم، فوزیہ وہاب وغیرہ۔‘
ان کے مطابق، یہ قبرستان خیابان راحت سے شروع ہو کر خیابان مومن اور سعودی قونصل خانے تک آباد ہے۔ وہ چودہ سال سے اس قبرستان کی دیکھ بھال کررہے ہیں۔
اس قبرستان میں چند قبریں ایسی بھی ہیں جن پر انتہائی جدید انداز کی تراش خراش والے جاپانی اسٹائل سے ملتے جھلتے لکڑی کے پائیوں اور چھت والے شیڈز موجود ہیں جبکہ کتبوں کے ڈیزائن بھی ’نہایت دلکش ڈیزائن‘ اور جدید اسٹائل کے ہیں جنہیں دیکھ کر ہی یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ مرحوم معاشرے میں اعلیٰ حیثیت یا اونچا اسٹیٹس رکھنے والا تھا اور اس کے لواحقین بھی کچھ کم حیثیت والے نہیں۔
یہیں ایک قبر کے سرہانے قیمتی پتھر سے بنی اور جدید تراش خراش اور بیل بوٹوں سے کندہ ایک بنچ بھی موجود ہے جس پر بیٹھ کر آپ مرحومین کے لئے دعا اور تلاوت کرسکتے ہیں۔ ایک قبر تو بلیک سنگ مرمر کی ہے، شاید بلیک سنگ مرمر ،سفید رنگ کے سنگ مرمر سے بھی کچھ مہنگا ہوتاہے۔ ۔۔تبھی اس کا استعمال بھی نسبتاً کم ہوتا ہے۔
اس قبرستان کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ پہاڑ پر بناہے۔ کچھ قبریں انتہائی اوپر، پہاڑی کی چوٹی پر واقعی ہیں اور جیسے جیسے پہاڑی راستے نیچے اترتے جاتے ہیں قبروں کی تعداد بھی بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ تاہم عام قبرستانوں کی بہ نسبت یہاں صفائی ستھرائی کا بہت اچھا انتظام ہے، شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ یہ نہایت وسیع و عریض اورجاذب نظر بنگلوں کے درمیان واقع ہے اور بقول شاکر اس میں وی آئی پی لوگ دفن ہیں۔
اونچا اسٹیٹس مرکر بھی قائم رہتا ہے۔۔۔
شہر میں 34 سے زائد قبرستان ہیں اور جس طرح زندہ آبادی کو متوسط، غریب، رولنگ کلاس یا ’پیسے والوں‘ کے طبقات میں شمار کیا جاتا ہے ، اسی طرح مرنے کے بعد بھی انہیں مختلف ’کلاسز‘ میں تقسیم کرتے ہوئے قبرستانوں میں اتاردیا جاتا ہے۔
اس کی مثال بھی یہی قبرستان ہیں جیسے نیوکراچی، اورنگی ٹاوٴن، نارتھ کراچی، موسیٰ کالونی، عیسیٰ نگری ۔۔۔وغیرہ، غریبوں کی بستیاں ہیں، سو یہاں کے قبرستانوں کا پرسان حال بھی کوئی نہیں ۔۔اینٹ اور گارے سے بنی ۔۔ٹوٹی ہوئی اور زمین میں دھنسی قبریں۔۔ان پر اگتے جھاڑ جنکار ۔۔۔کچھ قبرستانوں میں منشیات استعمال کرنے والوں کے ڈیرے۔۔جرائم پیشہ افراد کی پناہ گاہیں جو سبزے کو ترستے ہوئے لق دق صحرامیں بدل گئے ہیں۔۔
اور ان کے مقابلے میں ہیں کلفٹن اور ڈیفنس جیسے پوش علاقوں کے وی آئی پی قبرستان جن کا تذکرہ آپ بالائی سطور میں پڑھ چکے ہیں۔۔۔اس تضاد کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ انسان کا ’اونچا اسٹیٹس‘ مرنے کے بعد بھی اس کا ’پیچھا‘ کرتا رہتا ہے۔ زندگی میں حیثیت اعلیٰ ہو اور رتبہ بڑا ہو تو مرنے کے بعد بھی اسے ’وی آئی پی قبرستان‘ سے کم حیثیت کی جگہ نہیں ملتی۔۔۔بصورت دیگر بعض دفعہ کفن دفن کے لئے بھی چندہ کرنا پڑتا ہے۔ ۔۔۔اور اس کے بعد بھی جو قبر ملتی ہے وہ کسی غریب بستی میں قائم قبرستان سے گزرتے گندے نالے سے زیادہ دور نہیں ہوتی۔۔
شاہجہاں کے بنائے ہوئے ’تاج محل‘ کی حقیقت ایک ’مقبرے‘ سے بڑھ کر نہیں۔۔۔ آگرہ کے’ تاج‘ اور کراچی میں بنے تاج ’محلوں‘ میں بھی یہی یکسانیت ہے۔ یہاں بھی انگنت لوگوں نے اپنے پیاروں سے محبت کی یاد میں ایسے ایسے مقبرے بنا رکھے ہیں جنہیں دیکھ کر کہیں عقل حیران ہوجاتی ہے تو کہیں تعجب کی کوئی انتہا نہیں رہتی۔
مثال کے طور پر سخی حسن کے قدیم قبرستان میں ایک ایسا وسیع وعریض مقبرہ بنا ہوا ہے جس کی لمبائی چوڑائی کئی ہزار گز ہوگی۔ تاج محل کی طرح ہی اس مقبرے کا بہت بڑا حصہ سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے۔ تاج محل کی طرح ہی اس کا بھی ایک گول اور بلند و بالا گنبد ہے۔ بہت بڑا صحن ہے جہاں سبزہ اگا ہے، نہایت صاف ستھری روش بنی ہوئی ہیں، 25، 30 قبریں بھی ہیں جو سب کی سب۔۔ سنگ مرمر کی ہیں۔
مقبرے کی دیکھ بھال کے لئے باقاعدہ کئی ملازم ہیں۔ ان ہی ملازمین میں سے ایک ملازم نے وائس آف امریکہ کو اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ کئی برس سے یہاں بہت سے کام کر رہا ہے مثلاً پودوں اور گھانس کو پانی دینا، پانی کی موٹر چلانا، بجلی کے انتظامات، مقبرے کے احاطے میں ہی بنی ہوئی دو منزلہ مسجد کی دیکھ ویکھ، صاف صفائی اور دیگر کئی چیزوں کے انتظامات اسی کا ذمہ ہیں۔ اسی نے یہ انکشاف کیا کہ’شہر کے ہر کونے کی لائٹ چلی جائے تب بھی یہاں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی۔۔اس کے لئے ’خصوصی انتظامات‘ موجود ہیں۔‘
مقبرے کے اندر موجود کچھ قبروں پر تو کئی کئی سیلنگ فین بھی لگے ہیں۔ زیادہ پاور والے انرجی سیور روشن ہیں، دروازے بہت ہی خوب صورت ڈیزائن والے اور مہنگی لکڑی سے تیار کردہ ہیں۔ فرش پر بیرون ملک سے منگائے گئے قیمتی ٹائلز لگے ہیں۔ روشنی اور ہوا کے لئے نہایت نفیس انداز میں کھڑکیاں بھی رکھی گئی ہیں۔ اس کی چوکھٹیں، وارنش، مہنگی لکڑی، اس کا ڈیزائن، شیشہ، نیٹنگ، رنگ و روغن۔۔ سب کچھ اسی انداز کا ہے جیسے کسی علیشان بنگلے کا ہوتا ہے۔
اسی قبرستان میں ایک مقبرہ ایسا بھی ہے جہاں باقاعدہ بجلی کا میٹر لگا ہے۔ قبرستان کی دیکھ بھال پر مامور ایک شخص فرید نے ’وی او اے‘ کو بتایا کہ ’مزار کو روشن رکھنے کے لئے جو بجلی استعمال ہوتی ہے، لواحقین باقاعدگی سے ہر ماہ اس کا بل ادا کرتے ہیں۔‘
ایسا ہرگز نہیں ہے کہ یہ صرف ایک قبرستان میں بنے کسی ایک مقبرے کی بات ہو بلکہ شہر میں موجود تقریباً34قبرستانوں میں ایسے ہی بڑے بڑے مقبرے موجود ہیں۔ نمائندے کی جانب سے کئے گئے مشاہدے سے واضح ہوا کہ پاپوش نگر، طارق روڈ، کلفٹن، یاسین آباد، ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی، میوہ شاہ، لیاقت آباد، گلشن اقبال، جامعہ کراچی، علی باغ، ڈرگ روڈ، ماڈل کالونی، ملیر، دارالعلوم کورنگی، عظیم پورہ، عیسیٰ نگری، لیموں گوٹھ، میٹروول تھرڈ، میاں گوٹھ، نیو کراچی، سائٹ ایریا، پیربخاری، فوجی قبرستان، جنت البقیح، پہلوان گوٹھ، سعود آباد، شاہ فیصل، شانتی نگر ڈالمیا روڈ، اسماعیل گوٹھ، لانڈھی اور محمد شاہ قبرستان نارتھ کراچی سمیت شاید ہی کوئی قبرستان ایسا ہے جہاں لوگوں نے اپنے پیاروں کے مقبروں کو اپنی اپنی حیثیت یا گنجائش کے مطابق اسے ’اچھے سے اچھا‘ بنانے کی کوشش نہ کی ہو۔
کچھ مقبروں پر تو ہر جمعرات کو دینی تہواروں پر اور سالانہ عروس وغیرہ کے موقع پربڑے پیمانے پر لنگر بھی لگتا ہے۔ اس لنگر میں ملنے والے کھانوں پر بھی بہت بڑی بڑی رقمیں خرچ ہوتی ہیں۔ بکرے اور مرغی کا سالن تو عام بات ہے۔ شہر کے بہترین پکوان ہاوٴسز اور نامی گرامی باورچیوں سے یہ کھانے تیار ہوتے اور مزار پر لاکر غریبوں میں مفت تقسیم کردیئے جاتے ہیں، تاکہ مرحوم کی روح کو ثواب پہنچ سکے۔ ۔۔لنگرکے معاملے میں تو آگرہ کا تاج محل بھی پیچھے رہ گیا ہے۔۔۔کہ وہاں اس قسم کی کوئی نیاز نذر نہیں ہوتی۔۔۔نا ہی لنگر لگتا ہے۔
’وی آئی پی‘ قبرستان
جی ہاں۔ کراچی میں دو چار قبرستان ایسے بھی ہیں جنہیں ’وی آئی پی قبرستان‘ کا درجہ دیا جاتا ہے مثلاً ڈیفنس فیز فور گزری کا قبرستان ۔۔ اس کی دیکھ بھال کرنے والے ایک ملازم شاکر خان نے وی او اے کو بتایا ’یہاں بہت سے وی آئی پی محو خواب ہیں جیسے سلیم ناصر، ملکہ ترنم نورجہاں، شفیع محمد، رضوان واسطی، طاہرہ واسطی، ابراہیم نفیس، سید کمال، چوہدری اسلم، فوزیہ وہاب وغیرہ۔‘
ان کے مطابق، یہ قبرستان خیابان راحت سے شروع ہو کر خیابان مومن اور سعودی قونصل خانے تک آباد ہے۔ وہ چودہ سال سے اس قبرستان کی دیکھ بھال کررہے ہیں۔
اس قبرستان میں چند قبریں ایسی بھی ہیں جن پر انتہائی جدید انداز کی تراش خراش والے جاپانی اسٹائل سے ملتے جھلتے لکڑی کے پائیوں اور چھت والے شیڈز موجود ہیں جبکہ کتبوں کے ڈیزائن بھی ’نہایت دلکش ڈیزائن‘ اور جدید اسٹائل کے ہیں جنہیں دیکھ کر ہی یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ مرحوم معاشرے میں اعلیٰ حیثیت یا اونچا اسٹیٹس رکھنے والا تھا اور اس کے لواحقین بھی کچھ کم حیثیت والے نہیں۔
یہیں ایک قبر کے سرہانے قیمتی پتھر سے بنی اور جدید تراش خراش اور بیل بوٹوں سے کندہ ایک بنچ بھی موجود ہے جس پر بیٹھ کر آپ مرحومین کے لئے دعا اور تلاوت کرسکتے ہیں۔ ایک قبر تو بلیک سنگ مرمر کی ہے، شاید بلیک سنگ مرمر ،سفید رنگ کے سنگ مرمر سے بھی کچھ مہنگا ہوتاہے۔ ۔۔تبھی اس کا استعمال بھی نسبتاً کم ہوتا ہے۔
اس قبرستان کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ پہاڑ پر بناہے۔ کچھ قبریں انتہائی اوپر، پہاڑی کی چوٹی پر واقعی ہیں اور جیسے جیسے پہاڑی راستے نیچے اترتے جاتے ہیں قبروں کی تعداد بھی بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ تاہم عام قبرستانوں کی بہ نسبت یہاں صفائی ستھرائی کا بہت اچھا انتظام ہے، شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ یہ نہایت وسیع و عریض اورجاذب نظر بنگلوں کے درمیان واقع ہے اور بقول شاکر اس میں وی آئی پی لوگ دفن ہیں۔
اونچا اسٹیٹس مرکر بھی قائم رہتا ہے۔۔۔
شہر میں 34 سے زائد قبرستان ہیں اور جس طرح زندہ آبادی کو متوسط، غریب، رولنگ کلاس یا ’پیسے والوں‘ کے طبقات میں شمار کیا جاتا ہے ، اسی طرح مرنے کے بعد بھی انہیں مختلف ’کلاسز‘ میں تقسیم کرتے ہوئے قبرستانوں میں اتاردیا جاتا ہے۔
اس کی مثال بھی یہی قبرستان ہیں جیسے نیوکراچی، اورنگی ٹاوٴن، نارتھ کراچی، موسیٰ کالونی، عیسیٰ نگری ۔۔۔وغیرہ، غریبوں کی بستیاں ہیں، سو یہاں کے قبرستانوں کا پرسان حال بھی کوئی نہیں ۔۔اینٹ اور گارے سے بنی ۔۔ٹوٹی ہوئی اور زمین میں دھنسی قبریں۔۔ان پر اگتے جھاڑ جنکار ۔۔۔کچھ قبرستانوں میں منشیات استعمال کرنے والوں کے ڈیرے۔۔جرائم پیشہ افراد کی پناہ گاہیں جو سبزے کو ترستے ہوئے لق دق صحرامیں بدل گئے ہیں۔۔
اور ان کے مقابلے میں ہیں کلفٹن اور ڈیفنس جیسے پوش علاقوں کے وی آئی پی قبرستان جن کا تذکرہ آپ بالائی سطور میں پڑھ چکے ہیں۔۔۔اس تضاد کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ انسان کا ’اونچا اسٹیٹس‘ مرنے کے بعد بھی اس کا ’پیچھا‘ کرتا رہتا ہے۔ زندگی میں حیثیت اعلیٰ ہو اور رتبہ بڑا ہو تو مرنے کے بعد بھی اسے ’وی آئی پی قبرستان‘ سے کم حیثیت کی جگہ نہیں ملتی۔۔۔بصورت دیگر بعض دفعہ کفن دفن کے لئے بھی چندہ کرنا پڑتا ہے۔ ۔۔۔اور اس کے بعد بھی جو قبر ملتی ہے وہ کسی غریب بستی میں قائم قبرستان سے گزرتے گندے نالے سے زیادہ دور نہیں ہوتی۔۔