اقوام متحدہ کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے خبردار کیا ہے کہ لبنان میں بڑھتا ہوا شامی پناہ گزینوں کا بحران فرقہ وارانہ تشدد کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔
اہل کار کا کہنا ہے کہ لبنانیوں اور شامیوں کے درمیان محدود وسائل کے بارے میں مسابقت کے باعث اِن دونوں برادریوں کے درمیان دباؤ میں اضافہ خطرناک صورت دھار سکتا ہے۔
جنیوا سے ’وائس آف امریکی‘ کی نمائندہ، لیزا شلائین کہتی ہیں کہ دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں، لبنان میں پناہ گزینوں کی اوسط کے اعداد انتہائی درجے پر ہیں۔
پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کےادارے نے 11 لاکھ پناہ گزینوں کو رجسٹر کیا ہے، جس میں ہر ہفتے 12000کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اندازوں کے مطابق، اس سال کے آخر میںٕ، مہاجرین کی آبادی 15 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔
لبنان میں اقوام متحدہ کے انسانی تعلقات کے رابطہ کار، روس ماؤنٹین کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں کی تعداد بڑھ کر لبنان کی آبادی کی ایک چوتھائی تک پہنچ گئی ہے، جو بڑھتے بڑھتے تیسرے حصے تک پہنچ جائے گی۔
لبنان میں کوئی پناہ گزیں کیمپ نہیں ہے۔ اس لیے، زیادہ تر شامی پناہ گزیں لبنان کی 240 غریب ترین آبادیوں میں رہتے ہیں، جو شمالی اقار اور بقا علاقوں میں قائم ہیں۔
ماؤنٹین نے ’وائس آف امریکہ‘ کو لبنانیوں اور شامیوں کے ایکساتھ رہنے کی تفصیل بتائی، وہ ایک ہی جیسے روزگار کے مواقع اور بنیادی ضروریات جس میں خوراک، پانی کی کمی اور صحت کے معاملات شامل ہیں، وہ عدم سلامتی اور بڑھتے ہوئے تنازع کا ایک نسخہ ہے۔
روس ماؤنٹین یورپ کے متعدد اہم شہروں کے دورے پر ہیں، تاکہ لبنان میں درپیش المیئے کی طرف دھیان مبذول کراسکیں۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ ملک کے استحکام کا دارومدار صرف رقوم سے وابستہ نہیں ہے۔
تاہم، اُنھوں نے توجہ دلائی کہ یہ بات خوش آئند نہیں کہ 2014ء کے کے لیے اقوام متحدہ کی 1.6 بلین ڈالر مالیت کی انسانی ہمدردی کی اپیل میں اب تک محض 29 فی صد رقوم موصول ہوئی ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ بین الاقوامی حمایت کی عدم دستیابی پہلے ہی سے دھماکہ خیز صورت حال میں مزید بگاڑ کا باعث بن رہی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ سیاسی اور مذہبی رہنماؤں اور سنی اور شیعہ برادیوں کی جانب سے کی جانے والی سخت تگ و دو کی بدولت لیبانی لوگوں اور شامی پناہ گزینوں کے مابین بڑھتے ہوئے تناؤ اور برہمی کی صورت حال کی پردہ پوشی کی جاتی رہی ہے۔