شام میں جنگ بندی معاہدے کا نفاذ

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جمعے کو متفقہ طور پر شام کی خانہ جنگی میں ملوث تمام فریقین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ سمجھوتے کی شرائط پر عمل درآمد کریں۔

شام میں جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کا آغاز ہو گیا ہے اور تقریباً 100 متحارب گروپوں نے اپنی کارروائیاں روکنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

معاہدہ، جسے امریکہ اور روس نے طے کیا تھا، اُس کا آغاز دمشق میں نصف شب سے ہوا۔

شامی حزب مخالف کے وسیع تر گروپ، اعلیٰ مذاکراتی کمیٹی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ 97 گروپوں نے جنگ بندی میں حصہ لینے کا وعدہ کیا ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جمعے کو متفقہ طور پر شام کی خانہ جنگی میں ملوث تمام فریقین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ سمجھوتے کی شرائط پر عمل درآمد کریں۔

قرارداد میں حکومت شام اور حزب مخالف سے کہا گیا تھا کہ وہ عالمی ادارے کی جانب سے طے کیے گئے امن مذاکرات بحال کریں۔

امریکی محکمہٴ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے جمعہ کو کہا کہ روس نے امریکہ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ جنگ بندی کے بعد وہ شام میں ’’معتدل اپوزیشن‘‘ کے خلاف حملے نہیں کرے گا۔

اُنھوں نے کہا کہ روس کے لیے ’’پابندی کرنے یا بگاڑ پیدا کرنے‘‘ کا لمحہ ہے اور یہ ثابت کرنے کا کہ آیا وہ لڑائی بند کرنے کے بارے میں سنجیدہ ہے۔

جنگ بندی عمل میں آنے سے قبل جمعہ کو روسی لڑاکا طیاروں نے بم حملے جاری رکھے، جو روس کے بقول، ’’دہشت گرد تنظیموں ‘‘ کے خلاف کیے گئے۔

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے جمعہ کو اخباری نمائندوں کو بتایا کہ وہ شام میں داعش کے شدت پسندوں اور القاعدہ سے منسلک النصرہ محاذ کے دہشت گردوں کے خلاف بمباری کی مہم جاری رکھیں گے۔

اُنھوں نے کہا کہ جنگ بندی کے سمجھوتے میں یہ گروپ شامل نہیں ہیں، جنھیں اقوام متحدہ نے دہشت گرد تنظیمیں قرار دیا ہے۔ نہ تو داعش اور ناہی النصرہ جنگ بندی میں فریق ہیں۔

برطانیہ میں قائم ’سیریئن آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس‘ نے جمعے کے روز الزام لگایا کہ روس نے شامی حکومت کے خلاف باغیوں پر حملوں کو تیز کر دیا ہے۔

اے ایف پی کے مطابق یہ فضائی کارروائیاں ’’عام حملوں کے مقابلے میں زیادہ شدید تھیں‘‘۔ جن علاقوں کو نشانہ بنایا گیا اُن میں دمشق کے مشرقی علاقے، صوبہٴ حمص کا شمالی علاقہ اور صوبہٴ حلب کے کچھ حصے شامل ہیں۔

روس کے ترجمان ڈِمٹری پیسکوف کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ روسی فضائیہ شام میں ’’دہشت گردتنظیموں‘‘ کے خلاف یقینی طور پر اپنی کارروائیاں جاری رکھے گی اور آبزرویٹری گروپ کے قابل بھروسہ ہونے پر سوال کیا۔

امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ سمجھوتے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے امریکہ ہر ممکن کوشش کرے گا۔

سکیورٹی سے متعلق اعلیٰ اہل کاروں سے جمعرات کے روز امریکی محکمہٴ خارجہ میں ملاقات کے بعد اُنھوں نے کہا کہ عراق اور شام کے تنازعات کا خاتمہ داعش کے دہشت گرد نیٹ ورک کو شکست دینے میں مددگار ثابت ہو گا۔