جنگ کا خطرہ، ادلب سے تیس ہزار لوگوں کا انخلا

شام کے شہر ادلیب کے مغربی قصبے الحبیب میں شام اور روسی بمباری کے بعد تباہی کا ایک منظر۔ 10 ستمبر 2018

سن 2011 میں صدر بشار الاسد کے جبر کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں کے بعد سے اب تک ساڑھے تین لاکھ افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔

اقوام متحدہ نے پیر کے روز کہا ہے کہ شام کے شمال مغرب میں باغیوں کے آخری مضبوط ٹھکانے ادلب پر سرکاری فورسز اور ان کے اتحادیوں کے حملے کے بعد تقریباً 30 ہزار افراد اپنے گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف جا چکے ہیں۔

شام اور روس کی مشترکہ فورسز نے صوبہ ادلب اور قریبی علاقے حمص کے کچھ علاقوں میں گزشتہ چند روز سے بم برسانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

اس علاقے میں وہ حکومت مخالف گروپ موجود ہیں جو القاعدہ اور مخالف گروہوں سے منسلک ہیں۔

شام حکومت کے فوجی دستے پچھلے چند ہفتوں سے علاقے میں اکھٹے ہو رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے انسانی فلاح و بہبود سے متعلق انڈر سیکرٹری جنرل مارک لوکاک نے خبردار کیا ہے کہ زمینی حملے نتیجہ اس ملک کے لیے اب تک کے سب سے زیادہ جانی نقصان کی صورت میں برآمد ہو سکتا ہے۔

لوکاک کا کہنا ہے کہ جنگ سے بچنے کے لیے لگ بھگ 8 لاکھ افراد علاقہ چھوڑ کر فرار ہو سکتے ہیں جو ادلیب کی 30 لاکھ آبادی کی اس نصف تعداد سے زیادہ ہے جو پہلے ہی شام کے مختلف حصوں میں نقل مکانی کر چکے ہیں۔

سن 2011 میں صدر بشار الاسد کے جبر کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں کے بعد سے اب تک ساڑھے تین لاکھ افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔

ادلیب کے مستقل کے بارے میں پچھلے ہفتے ترکی، ایران اور روس کے راہنماؤں کے درمیان تہران میں ملاقات ہوئی تھی۔ لیکن یہ بات چیت علاقے میں جنگ کو ٹالنے کی کوششوں پر تعطل پیدا ہونے سے بے نتیجہ رہی تھی۔