حمص کے گورنر کا کہنا ہے کہ شہر میں امدادی سامان پہنچ چکا ہے، باوجود ان رپورٹوں کے کہ پرانے شہر کی سڑکوں پر بارودی سرنگیں نصب کی گئی ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ گھات لگا کر گولیاں چلانے کے واقعات کے باعث، امدادی کارروائیاں متاثر ہو رہی ہیں
واشنگٹن —
شام کے مورچہ بند شہر، حمص کے گورنر نے کہا ہے کہ اتوار کے روز باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں سے 600 سے زائد افراد کو باہر نکالا گیا ہے۔
باغیوں اور حکومتی افواج کے درمیان ہونے والی جنگ بندی کے تیسرے روز، اقوام متحدہ اور شام کی ہلالِ احمر تنظیم کے کارکنوں نے ایک بڑے گروپ کو مدد فراہم کی۔ باوجود اِس کے، عینی شاہدین کے بیان کے مطابق، بھاری دہانے کا گولہ لگنے کے نتیجے میں شہر چھوڑ کر جانے والی کئی عدد خواتین اور بچے ہلاک و زخمی ہوئے۔
حمص کے گورنر طلال بارزائی اور ہلال احمر کے اہل کاروں نے بتایا ہے کہ سہ روزہ امدادی کارروائی کی مدت کو بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے، جسے اقوام متحدہ کے توسط سے ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں طے کیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 2012ء کے وسط سے اب تک حمص میں فوجی محاصرے کے باعث 2500افراد پھنسے ہوئے تھے۔
بارزائی نے کہا ہے کہ امدادی سامان حمص پہنچ چکا ہے، باوجود ان رپورٹوں کے کہ پرانے شہر کی سڑکوں پر بارودی سرنگیں نصب کی گئی ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ گھات لگا کر گولیاں چلانے کے واقعات کے باعث، امدادی کارروائیاں متاثر ہو رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ہنگامی امدادی کام کی رابطہ کار، ولیری اموس نے کہا ہے کہ اُنھیں یہ سن کر مایوسی ہوئی ہے کہ امدادی کارکنوں کو جان بوجھ کر ہدف بنایا گیا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ دراصل یہ معاملہ اُن خطرات کی نشاندہی کرتا ہے جو آئے روز شام میں امدادی کارکنوں کو درپیش رہتے ہیں۔
شام کی حکومت اور حزب مخالف جنگ بندی کو توڑنے کا ذمہ دار ایک دوسرے کو قرار دیتے ہیں، جس کا مقصد امدادی کارکنوں کو اندر داخل ہونے اور شہریوں کے انخلا کے لیے نافذ کیا گیا ہے۔
حکومتِ شام کی طرف سے ایک سال سے جاری محاصرے کے نتیجے میں، حمص میں خوراک کی کمی کی صورتِ حال شدت اختیار کر گئی ہے۔
ہفتے کو اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے امدادی کارکنوں نے کہا ہے کہ حکومت شام کی افواج نے حلب کے شمالی شہر میں حملوں کا ایک نیا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
’سیریئن آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس‘ کا کہنا ہے کہ حکومت کی افواج نے شہر میں دیسی ساخت کے بارودی مواد والے ’بیرل بم‘ استعمال کیے، جن کے نتیجے میں کم از کم 15 افراد ہلاک ہوئے۔
شامی حکومت اور حزب مخالف کے درمیان اگلے مرحلے کی امن بات چیت پیر کو ہونے والی ہے۔
باغیوں اور حکومتی افواج کے درمیان ہونے والی جنگ بندی کے تیسرے روز، اقوام متحدہ اور شام کی ہلالِ احمر تنظیم کے کارکنوں نے ایک بڑے گروپ کو مدد فراہم کی۔ باوجود اِس کے، عینی شاہدین کے بیان کے مطابق، بھاری دہانے کا گولہ لگنے کے نتیجے میں شہر چھوڑ کر جانے والی کئی عدد خواتین اور بچے ہلاک و زخمی ہوئے۔
حمص کے گورنر طلال بارزائی اور ہلال احمر کے اہل کاروں نے بتایا ہے کہ سہ روزہ امدادی کارروائی کی مدت کو بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے، جسے اقوام متحدہ کے توسط سے ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں طے کیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 2012ء کے وسط سے اب تک حمص میں فوجی محاصرے کے باعث 2500افراد پھنسے ہوئے تھے۔
بارزائی نے کہا ہے کہ امدادی سامان حمص پہنچ چکا ہے، باوجود ان رپورٹوں کے کہ پرانے شہر کی سڑکوں پر بارودی سرنگیں نصب کی گئی ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ گھات لگا کر گولیاں چلانے کے واقعات کے باعث، امدادی کارروائیاں متاثر ہو رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ہنگامی امدادی کام کی رابطہ کار، ولیری اموس نے کہا ہے کہ اُنھیں یہ سن کر مایوسی ہوئی ہے کہ امدادی کارکنوں کو جان بوجھ کر ہدف بنایا گیا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ دراصل یہ معاملہ اُن خطرات کی نشاندہی کرتا ہے جو آئے روز شام میں امدادی کارکنوں کو درپیش رہتے ہیں۔
شام کی حکومت اور حزب مخالف جنگ بندی کو توڑنے کا ذمہ دار ایک دوسرے کو قرار دیتے ہیں، جس کا مقصد امدادی کارکنوں کو اندر داخل ہونے اور شہریوں کے انخلا کے لیے نافذ کیا گیا ہے۔
حکومتِ شام کی طرف سے ایک سال سے جاری محاصرے کے نتیجے میں، حمص میں خوراک کی کمی کی صورتِ حال شدت اختیار کر گئی ہے۔
ہفتے کو اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے امدادی کارکنوں نے کہا ہے کہ حکومت شام کی افواج نے حلب کے شمالی شہر میں حملوں کا ایک نیا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
’سیریئن آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس‘ کا کہنا ہے کہ حکومت کی افواج نے شہر میں دیسی ساخت کے بارودی مواد والے ’بیرل بم‘ استعمال کیے، جن کے نتیجے میں کم از کم 15 افراد ہلاک ہوئے۔
شامی حکومت اور حزب مخالف کے درمیان اگلے مرحلے کی امن بات چیت پیر کو ہونے والی ہے۔