خیبر پختونخوا میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ممبران صوبائی اسمبلی میں اختلافات کے باعث صوبائی کابینہ کی تقریب حلفِ برداری کو ایک بار پھر ملتوی کردیا گیا ہے۔
کابینہ کیلئے پشاور سے نامزد وزیر اشتیاق ارمڑ نے دعویٰ کیا کہ نو منتخب کابینہ کی تقریب حلف برداری منگل کے بجائے اب بدھ کے روز ہو گی۔
وائس آف امریکہ سے بات جیت کرتے ہوئے اشتیاق ارمڑ نے بتایا کہ کابینہ کے تشکیل پر اختلافات پیدا ہونا ایک سیاسی امر ہے مگر یہ اختلافات وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو جاتے ہیں۔ ایک روز قبل وزیر اعلیٰ محمود خان نے کابینہ کی تشکیل پر ممبران صوبائی اسمبلی میں اختلافات کی بھی تصدیق کی تھی اور اسے سیاسی عمل کا حصہ قرار دیا تھا۔ محمود خان کا کہنا تھا کہ اس کے حل کے کوشش کی جارہی ہے۔
جنوبی ضلع بنوں سے تعلق رکھنے والے ملک شاہ محمد نے کابینہ میں وزیراعلیٰ کے مشیر کے طور پر شامل ہونے سے معذرت کا ا ظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اُنہوں نے اسی عہدے پر پچھلی کابینہ میں حذمات سرانجام دی ہیں۔ ان کا شکوہ ہے کہ کابینہ میں جنوبی اضلاع سے کس بھی ممبر کو وزیر کے طور پر شامل نہیں کیا ہے جبکہ خواتین اورغیر مسلم اقلیتوں کیلئے مخصوص نششتوں پر بھی ان اضلاع سے تعلق رکھنے والوں کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیاہے۔
لکی مروت سے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کئے بغیر منتخب ہونے والے ممبر صوبائی اسمبلی ڈاکٹر ہشام انعام اللہ خان کو وزیر صحت کے طور پر نامزد کر دیا گیا ہے۔ مگر پارٹی کے اندرونی حلقوں کا کہنا ہے کہ ہشام انعام اللہ خان کو پارٹی نہیں بلکہ ذاتی اور خاندانی حیثیت میں وزیر بنایا جا رہا ہے۔
صوبائی کابینہ میں تعلیم، اعلیٰ تعلیم، آب پاشی، آب نوشی، کھیل، آثار قدیمہ اور کئی ایک اہم محکموں کے لئے وزراء یا مشیر نامزد نہیں کئے گئے ہیں۔
حکمران جماعت ہی سے تعلق رکھنے والے سنیئر ممبران صوبائی اسمبلی کا کہنا ہے کہ ان اہم محکموں کو آئندہ اکتوبر میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے بعد پر کیا جائیگا۔ ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر، وفاقی وزیر پرویز خٹک اور وزیر اعظم کے دستِ راست علی امین گنڈہ پور کے بھائی بھی متوقع وزراء میں سرفہرست ہیں۔
اُدھر خواتین اور غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کیلئے سرگرم کارکن بھی خیبر پختونخوا کابینہ میں خواتین اور غیر مسلم ممبران اسمبلی کو نمائندگی نہ دینے پر پاکستان تحریک انصاف کے قائدین کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔