داخلے پر پابندی کے باعث ’ایل او سی‘ پار تجارت معطل

  • روشن مغل

بھارتی کشمیر سے لائن آف کنٹرول کے راستے آنے والے سامان کے پاکستان میں داخلے پر پابندی کے باعث بین الکشمیر تجارت معطل کر دی گئی ہے۔

ایل او سی آرپار تجارت سے منسلک تاجروں کی طرف سے ہڑتال کے فیصلے کے بعد جمعرات کے روز پاکستانی کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد اور بھارتی کشمیر شہر سری نگر کے درمیان ہفتہ وار تجارت احتجاجاً غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی گئی۔

’انٹرا کشمیر ٹریڈ‘ کے ذریعے بھارتی کشمیر سے آنے والے مال کے بارے میں پاکستانی کسٹم نے تین اگست سے یہ مؤقف اختیار کر رکھا ہے کہ بھارتی کشمیر سے آنے والا مال پاکستان کی حدود میں لانا غیر قانونی اور سمگلنگ کے زمرے میں آتا ہے۔ اس لیے، کسی بھی صورت میں ایل او سی ٹریڈ کے مال کو پاکستان کی حدود میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔

پاکستانی کشمیر کے ایل او سی آرپار سفر اور تجارت کے کے نگران ادارے، TATA کے ناظم کرنل ریٹارڈ شاہد محمود نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ کسٹم کی جانب سے بھارتی کشمیر سے آنے والے سامان کے پاکستان میں داخلے پر پابندی کی وجہ سے تاجروں کی ہڑتال کے باعث آج ٹرک سروس نہیں چلی۔

انہوں نے کہا کہ ٹاٹا کی جانب سے ’فیڈرل بورڈ آف ریونیو‘ کے ساتھ مذاکرات بھی کروائے گئے۔ لیکن، مامعلہ حل نہیں ہو سکا۔

شاہد محمود نے بتایا کہ ’’تاجر مروجہ ٹیکس بھی ادا کرنے کو تیار ہیں۔ لیکن کسٹم حکام کی طرف سے کوئی نرمی نہیں دکھائی جا رہی ہے‘‘۔

تاہم، انہوں نے امید ظاہر کی کہ شاید اعلی عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹانے سے مسئلہ حل ہو جائے۔

’انٹرا کشمیر ٹریڈ یونین‘ کے ایک ترجمان، اعجاز احمد میر نے بتایا کہ کسٹم کی طرف سے ناکہ بندی کے باعث گذشتہ ہفتے سے بھارتی کشمیر سے پاکستانی کشمیر پہنچنے والے متعدد مال بردار ٹرک آزاد کشمیر کے مختلف مقامات پر کھڑے ہیں اور درجنوں ٹرکوں کا مال تاجروں نے پاکستانی کشمیر میں ہی اتار کر گوداموں میں ڈال دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’’کسٹم حکام کی جانب سے روا رکھا جانے والا سلوک ناقابل برداشت ہو چکا ہے۔ کسٹم کی پکڑ دھکڑ کے باعث اس وقت تک درجنوں تاجر معاشی طور پر دیوالیہ ہوگئے ہیں۔ اب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ ہم کب تک اپنی جمع پونجھی لٹاتے رہیں گے۔ اس لیے اب آرپار تجارت جاری نہیں رکھی جا سکتی‘‘۔

معلوم رہے کہ متنازعہ کشمیر کے دو حصوں کے درمیان جدا کشمیری خاندانوں کے درمیان روابط بڑھانے کے لئے 2008 میں بین الکشمیر ٹرک سروس کا آغاز کیا گیا تھا، جس کے تحت فروٹ، سبزی، خشک مصالحہ جات اور جڑی بوٹیوں سمیت 21 اشیا کی تجارت شروع کی گئی تھی؛ جس حجم میں ان تک کافی اضافہ ہو چکا ہے۔

’انٹرا کشمیر‘ تاجروں کا کہنا ہے کہ بھارتی کشمیر سے ہر ہفتے آنے والے ہزاروں من سامان کی پاکستانی کشمیر میں کھپت نہیں ہے، جس کی وجہ سے یہ مال اسلام آباد منڈی میں فروخت کے لیے لے جایا جاتا ہے۔