نوجوان لڑکی سے زیادتی، سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس

چیف جسٹس نے معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے پنجاب پولیس کے سربراہ سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے پنجاب کے جنوبی ضلعے ملتان میں مبینہ طور پنچایت کے حکم پر ایک نوجوان لڑکی سے جنسی زیادتی کے واقعہ کا از خود نوٹس لے لیا ہے۔

سپریم کورٹ سے جمعرات کی صبح جاری ایک بیان کے مطابق چیف جسٹس نے میڈیا میں شائع ہونے والی اُن خبروں کے بعد اس معاملے کا نوٹس لیا، جن میں کہا گیا تھا کہ ملتان کے علاقے مظفر آباد میں 20 رکنی پنچایت کے حکم پر ایک نو عمر لڑکی سے جنسی زیادتی کی گئی۔

بتایا جاتا ہے کہ پنچایت میں چار خواتین بھی بطور رکن شامل تھیں۔

چیف جسٹس نے اس معاملے پر پنجاب پولیس کے سربراہ سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔

پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے مطابق ایک خاتون نے پولیس تھانے میں شکایت درج کرائی تھی کہ اس کی 12 سالہ بیٹی کو عمر وڈا نامی ایک شخص نے مبینہ طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا ہے۔

بعد ازاں یہ معاملہ مقامی پنچایت میں بھی اٹھایا گیا جس میں یہ طے پایا کہ جس طرح 12 سالہ لڑکی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اس کے بدلے میں ملزم کی 17 سالہ بہن کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا جائے۔

اس واقعے کی خبر ہونے پر پولیس نے پنچایت میں شامل افراد کے خلاف مقدمہ درج کر کے ان میں سے بعض کو گرفتار بھی کر لیا ہے۔

حقوق نسواں کمیشن پنجاب کی چیئرپرسن فوزیہ وقار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جب تک سماجی رویے اور سوچ نہیں بدلے گی تب تک محض قوانین کی بنیاد پر خواتین کو تحفظ فراہم کرنا ممکن نہیں۔

اُدھر وزیر اعلٰی پنجاب شہباز شریف نے بھی جمعرات کو ملتان کا دورہ کر کے متاثرہ لڑکیوں سے ملاقات کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ پولیس نے اس معاملے میں غفلت برتی اور اُنھوں نے متعلقہ تھانے کے تمام عملے کو معطل کرتے ہوئے تین رکنی اعلیٰ سطحی تفتیشی ٹیم قیام کر دی ہے جو 72 گھنٹوں میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔

پاکستان میں ماضی میں بھی پنچایت یا مقامی سطح پر قائم جرگے خواتین سے متعلق متنازع فیصلے کرتے رہے ہیں۔