سپریم کورٹ نے غیر متعلقہ افراد کو سکیورٹی کی فراہمی سے متعلق سندھ پولیس کی رپورٹ مسترد کردی ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف سمیت تمام حق داروں کو قانون کے مطابق سکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کردی ہے اور ساتھ ہی تمام صوبوں کو سکیورٹی کی فراہمی کا فارمولا ایک ہفتے میں طے کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
پیر کو سپریم کورٹ میں غیر متعلقہ افراد کی سکیورٹی پر از خود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ تمام صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو عدالت میں موجود ہونا چاہیے۔ کچھ لوگوں کو سکیورٹی واپس لینے پر اعتراض ہے۔ میڈیا بھی سکیورٹی واپس لینے پر اعتراض کر رہا ہے۔ جن لوگوں کو سکیورٹی رسک ہے ان سے سکیورٹی واپس نہ لیں۔ کسی کی زندگی کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ بغیر قاعدے کے سکیورٹی واپس نہیں ملنی چاہیے۔ پنجاب میں غیر متعلقہ افراد کی سکیورٹی کا خرچہ ایک ارب 38 کروڑ ہے۔ سفید کپڑوں میں ملبوس افراد کو بھی سکیورٹی پر مامور کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب میں 4600 سے زائد افراد کو دی گئی سکیورٹی واپس لی۔ پولیس نے دیکھنا ہے کن لوگوں کو سکیورٹی کی ضرورت ہے۔ جو اہلیت نہیں رکھتا اسے کسی وزیر کے کہنے پر بھی سیکورٹی نہ دی جائے۔
دورانِ سماعت آئی جی پولیس اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ جن افراد کے نام وزارتِ داخلہ دیتی ہے انہیں ہی سکیورٹی فراہم کرتے ہیں۔ غیر متعلقہ افراد کی سکیورٹی کا دوبارہ جائزہ لیتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ہدایات جاری کیں کہ تمام صوبے اپنے سکیورٹی کے قوائد یا میکنزم بنا لیں اور صوبائی حکومتیں اس بارے میکں رپورٹ جمع کرائیں۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ سکیورٹی سے متعلق ایکشن لینے کا مقصد ٹیکس کا پیسہ بچانا ہے۔ لاہور میں دیکھا ہے کہ سرکاری گاڑیاں بچے چلا رہے ہیں۔ سرکاری گاڑیوں کا غلط استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ ایسے لوگوں کو سکیورٹی نہیں ملنی چاہیے جو اہلیت نہیں رکھتے۔
بعد ازاں عدالت نے از خود نوٹس کیس کی سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کر دی۔
رواں ماہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر پر فائرنگ کے بعد پنجاب حکومت نے ججز کی سکیورٹی بڑھانے کی درخواست کی تھی جسے چیف جسٹس نے مسترد کردیا تھا۔
بعد ازاں چیف جسٹس نے غیر متعلقہ افراد کو سرکاری سکیورٹی فراہم کرنے پر از خود نوٹس لیا تھا اور تمام غیر متعلقہ افراد سے سکیورٹی واپس لینے کی ہدایت کی تھی۔
سپریم کورٹ کے اس حکم کے بعد سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی بیٹی مریم نواز نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں چیف جسٹس کے سکیورٹی واپس لینے سے متعلق احکامات پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ "مائی لارڈ! دہشت گردی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے اور اس پر کاری ضرب لگانے والے وزیرِ اعظم کی سکیورٹی چھین لو۔ خدا نخواستہ انہیں کچھ ہوا تو ذمہ دار صرف آپ ہوں گے۔"