جسٹس فائز عیسیٰ کیس، دوسری نظرثانی اپیل پر اعتراضات درست ہیں یا غلط؟

فائل فوٹو

سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے حکومت کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرِ ثانی کیس میں ہونے والے فیصلے کے خلاف جمع کرائی گئی نظرِ ثانی کی نئی درخواستوں پر اعتراض لگا کر واپس کر دیا ہے۔

یہ نظرِ ثانی درخواستیں صدر، وزیرِ اعظم اور وزیرِ قانون نے جمع کرائی تھیں۔ جب کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور شہزاد اکبر نے بھی نظرِ ثانی کی علیحدہ درخواستیں سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھیں۔

صدر نے ازخود نوٹس دائرہ اختیار کے تحت آئینی درخواست دائر کی تھی۔

حکومت کے حامی وکلا کا کہنا ہے کہ قانون میں کسی فیصلے پر دوبارہ نظرِثانی کی گنجائش موجود ہے اس کے علاوہ ازخود نوٹس لینا ہے یا نہیں؟ اس بات کا فیصلہ رجسٹرار کو نہیں بلکہ عدالت کو کرنا ہوتا ہے۔

حکومت مخالف وکلا کا کہنا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کو سپریم کورٹ سے نکالنے کی کوشش ناکام ہوتے ہوئے دیکھ کر حکومت مختلف حربے آزما رہی ہے۔ جب کہ قانون اس بارے میں واضح ہے کہ ایک بار پھر نظرِثانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

صدر اور حکومت کی طرف سے دائر کی گئی 70 صفحات پر مشتمل درخواست میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو فریق بنایا گیا تھا۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ نظرِ ثانی درخواست پر فیصلہ آنے کے بعد بھی ازخود نوٹس دائرہ اختیار کے تحت سماعت کی جا سکتی ہے تاہم سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے اعتراض لگایا کہ ایک کیس میں دو مرتبہ نظرِ ثانی نہیں ہو سکتی اور حکومت کی درخواستیں واپس کر دیں۔

رجسٹرار سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ درخواستوں کی زبان بھی قابلِ اعتراض اور توہین آمیز ہے۔

بعد ازاں ترجمان وزارتِ قانون نے اپنے بیان میں کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرِ ثانی کیس پر ہونے والے اکثریتی فیصلے کے خلاف حکومت کی جانب سے 26 اپریل کو نظرِ ثانی درخواستیں جمع کرائی گئی تھیں جس پر رجسٹرار آفس کی جانب سے اعتراضات سامنے آئے ہیں۔

ترجمان نے بیان میں کہا کہ مذکورہ اعتراضات کو دور کرکے قانون کے مطابق یہ درخواستیں جلد دوبارہ جمع کرائی جائیں گی۔

Your browser doesn’t support HTML5

سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظرِ ثانی درخواست منظور کر لی

اس بارے میں رجسٹرار دفتر کی طرف سے کہا گیا کہ یہ معاملہ دوسری نظرِ ثانی درخواست کے مانند ہے۔ اس لیے یہ سپریم کورٹ رولز کے آرڈر 36، رول 9 کے تحت قابل سماعت نہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ پہلی نظرِ ثانی درخواست نمٹائے جانے کے بعد عدالت میں مزید کوئی نظرِ ثانی درخواست دائر نہیں کی جاسکتی۔

ایک کیس میں درخواستوں پر دوسری بار نظرِ ثانی ممکن ہے؟

اس بارے میں وکلا کی مختلف آرا سامنے آرہی ہیں۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ان درخواستوں پر جو اعتراض لگایا گیا کہ نظرِ ثانی کا جب فیصلہ ہو جائے تو اس پر دوسری اپیل دائر نہیں کی جا سکتی۔ لیکن دراصل یہ عام نظرِ ثانی نہیں بلکہ ’کیوریٹیونظرِ ثانی کی درخواستیں ہیں۔

عدالت سے کسی فیصلے پر اس کی نظرِ ثانی کے بعد بھی دوبارہ اس کیس کا جائزہ لینے کی درخواست کو ’کیوریٹیو‘ نظرِ ثانی کہا جاتا ہے۔

ان کے بقول اس میں آرٹیکل (3)184 کا کہا گیا ہے اور بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلوں کا سہارا لیا گیا تھا۔

اظہر صدیق نے کہا کہ ماضی میں ایسی مثال موجود ہے کہ سپریم کورٹ میں ایک کیس میں نظرِ ثانی اپیل کے بعد دوبارہ درخواست دائر کی گئی۔

انہوں نے بتایا کہ ایک کیس میں ملزمان کی درخواست دائر کی جس پر اس وقت کے رجسٹرار نے اعتراض لگایا کہ نظرِ ثانی اپیل دوبارہ دائر نہیں ہو سکتی۔ لیکن میرے کہنے پر اس معاملے کو عدالت کے سامنے رکھا گیا۔

ان کے بقول، اس پر انہوں نے کہا کہ انصاف کے دروازے بند نہیں کیے جا سکتے۔ اس پر چیف جسٹس نے اس درخواست کی سماعت کی۔

اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ اس معاملے کو بھی عدالت کے سامنے رکھا جائے اور وہ جو فیصلہ کریں اسے تسلیم کیا جائے۔

زبان کے استعمال کے حوالے سے اظہر صدیق نے کہا کہ یہ اعتراض خاص نہیں ہے کیوں کہ اصل درخواست سوائے رجسٹرار کے ابھی تک کسی نے نہیں دیکھی۔ اگر زبان کو قابلِ اعتراض کہا گیا ہے تو اس کی درستی ہو سکتی ہے۔

پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین عابد ساقی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔

ان کا کہنا ہے کہ حکومت اب تک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ریفرنس پر آئے فیصلے کو تسلیم نہیں کر رہی۔ حکومت نے پہلے ریفرنس دائر کیا اور بعد میں نظرِ ثانی میں بھی اسے ناکامی ہوئی۔

عابد ساقی کے مطابق اس بارے میں سپریم کورٹ میں مثالیں موجود ہیں کہ دوسری نظرِ ثانی اپیل کا کوئی حق نہیں ہوتا۔

آرٹیکل (3)184 کے تحت عدالت کے پاس ایک بار پھر نظرِ ثانی کا اختیار ہونے سے متعلق عابد ساقی کا کہنا تھا کہ اگر رجسٹرار کے نزدیک اس معاملے پر از خود نوٹس لینے کی ضرورت نہیں تو وہ اس بارے میں فیصلہ کرسکتے ہیں۔ جب کہ زبان کے استعمال پر بھی رجسٹرار اعتراض کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

ریفرنس کی سماعت اور نظرِ ثانی میں کب کیا ہوا؟

رواں سال 26 اپریل کو سپریم کورٹ کے 10 رکنی فل کورٹ بینچ نے صدارتی ریفرنس پر حکم کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظرِ ثانی درخواستیں 6 اور 4 کے تناسب سے منظور کی تھیں۔

اکثریتی فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور ان کے بچوں کی جائیدادوں سے متعلق ایف بی آر سمیت تمام فورمز کی قانونی کارروائی کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ایف بی آر کی مرتب کردہ رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل سمیت کسی عدالتی فورم پر چیلنج نہیں ہو سکتی۔

جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے 19 جون کے فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی درخواست دائر کی تھی۔ 19 جون 2020 کو سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے سات ججز کے اکثریتی مختصر حکم نامے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا۔

تاہم 10 رکنی بینچ میں سے سات اراکین نے مختصر حکم نامے میں پیرا گراف تین سے 11 میں سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کے سامنے دائر ریفرنس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو جسٹس فائز عیسی کے اہل خانہ سے ان کی جائیدادوں سے متعلق وضاحت طلب کرنے کا حکم دیا تھا اور اس معاملے پر رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کرانے کا کہا تھا۔

عدالتی بینچ میں شامل جسٹس مقبول باقر، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا لیکن انہوں نے اکثریتی فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھا تھا۔

عدالت عظمیٰ کے اس مختصر فیصلے کے پیراگراف 3 سے 11 کو دوبارہ دیکھنے کے لیے 8 نظرِ ثانی درخواستیں دائر کی گئی تھی۔

یہ درخواستیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کے صدر، پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین، ایڈووکیٹ عابد حسن منٹو اور پاکستان بار کونسل نے دائر کی تھیں۔

ان درخواستوں میں اعتراض اٹھایا گیا تھا کہ 19 جون کے مختصر فیصلے میں پیراگراف تین سے 11 کی ہدایات یا مواد غیر ضروری، متضاد اور غیر قانونی ہے اور یہ حذف کرنے کے قابل ہیں۔

اس کیس میں تفصیلی فیصلہ 23 اکتوبر 2020 کو جاری کیا گیا تھا جو 174 صفحات پر مشتمل تھا جس میں سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 209(5) کے تحت صدر مملکت عارف علوی کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر کردہ صدارتی ریفرنس میں مختلف نقائص کی نشاندہی کی گئی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نظرِ ثانی درخواست میں استدعا کی تھی کہ عدالتی کارروائی ٹی وی پر براہ راست نشر کرنے کا حکم دیا جائے۔ لیکن اس درخواست کو سپریم کورٹ کی طرف سے مسترد کر دیا گیا تھا۔

جس کے بعد بینچ تشکیل کے معاملے پر سماعت ہوئی اور عدالت نے 10 دسمبر 2020 کو اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا کہ آیا یہی بینچ یا ایک لارجر بینچ جسٹس عیسیٰ کیس میں نظرِ ثانی درخواستوں کا تعین کرے گا۔

بالآخر 22 فروری 2021 کو جاری کردہ 28 صفحات پر مشتمل فیصلے میں مذکورہ معاملہ چیف جسٹس کو بھیج دیا گیا تھا کہ وہ بینچ کی تشکیل سے متعلق فیصلہ کریں اور نظرِ ثانی درخواستوں کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دے سکتے ہیں۔

اگلے ہی روز 23 فروری 2021 کو چیف جسٹس پاکستان نے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ایک 10 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا جس میں ان تینوں ججز کو بھی شامل کر لیا گیا تھا جنہوں نے مرکزی فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھا تھا۔

اس بینچ نے چار اور چھ میں تقسیم رائے سے فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس فائز عیسیٰ کی اپیل کو منظور کرلیا اور حکومت کی طرف سے ریفرنس سمیت ایف بی آر کی انکوائری اور دیگر احکامات کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔