’رمضان بھٹی کمیشن‘ کی رپورٹ کے مطابق، حساس اداروں نے اسلحے کی اسمگلنگ کے معاملے سے انکار کیا ہے
کراچی —
کراچی میں ناجائز اسلحے کی موجودگی کے حوالے سے امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ سمندری راستوں کے ذریعے اسمگل ہو کر یہاں تک پہنچتا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے کراچی بندرگاہ سے اسلحے کی اسمگلنگ کا جائزہ لینے کی غرض سے تشکیل دیئے جانے والے ’رمضان بھٹی کمیشن‘ کی رپورٹ کے مطابق، حساس اداروں نے اسلحے کی اسمگلنگ کے معاملے سے انکار کیا ہے۔ لیکن، ان کا کہنا ہے کہ سمندری راستوں سے اسلحے کی اسمگلنگ کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
رمضان بھٹی کمیشن نے جمعرات کو ناجائز اسلحے سے متعلق تفصیلی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کر دی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سمندری راستوں کی تعداد 40 کے قریب ہے ۔ یہاں سینکڑوں لانچیں آتی جاتی ہیں۔ لیکن، کسٹم کی پوسٹیں صرف سات راستوں پر قائم ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان چوہدری محمد افتخار کی سرابراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے روبرو کراچی رجسٹری میں جمعرات کو ’امن و امان عمل درآمد کیس‘ کی سماعت کے دوران پیش کی گئی اس رپورٹ کے مطابق کسٹم کے پاس وسائل کی اشد کمی ہے، کنٹینرز، ٹرک اور دیگر گاڑیوں کو مختلف مقامات پر چیک کرنے کے لئے افرادی قوت قلیل ہونے کے ساتھ ساتھ جدید آلات کا بھی فقدان ہے۔
سماعت کے موقع پر آئی جی سندھ، ایڈیشنل آئی جی کراچی، ڈی جی رینجرز اور چیف سیکریٹری عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے گلہ کیا کہ دن رات یہ کہا جاتا ہے کہ عدالتیں فیصلے نہیں کرتیں۔ لیکن، اصل مسئلہ یہ ہے کہ چونکہ گواہوں کی حفاظت نہیں کی جاتی۔ لہذا، قاتل پکڑ میں نہیں آتے۔ ٹی وی جنرنلسٹ ولی بابر کے قتل کو کئی سال ہوگئے، لیکن اس کے قاتل آج تک نہیں پکڑے گئے۔
چیف جسٹس نے ولی بابر کیس کے گواہوں کے قاتلوں کی عدم گرفتاری پر رپورٹ بھی طلب کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 1992ء کے آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس افسر چُن چُن کر مار دیئے گئے۔ اُن کے قاتل کدھر ہیں؟ سندھ ہائیکورٹ کے حکم کے باوجود، اس کیس کے گواہوں کو تحفظ کیوں فراہم نہیں کیا گیا۔ گواہوں کا قتل بااثر افراد یا پولیس کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے مزید ریمارکس میں کہا کہ کراچی کی دکانوں پر لانچر اور اینٹی ایئر کرافٹ گن مل رہی ہیں، اگر تہیہ کرلیا جائے تو ایک گولی بھی نہیں آئے گی۔ اسلحے کی برآمدگی کے لئے کرفیو بھی تو لگایا جاسکتا ہے۔
جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دئیے کہ ہمارے زمانے میں سائیکل کرائے پر ملتی تھی۔ اب یہاں اسلحہ کرائے پر مل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون صرف کتابوں میں رکھنے کیلئے نہیں ہوتا۔
دوران سماعت چیف سیکریٹری سندھ چوہدری اعجاز نے وفاقی حکومت کی امن وامان سے متعلق سر بمہر رپورٹ بھی سپریم کورٹ میں پیش کی، جبکہ اس کے ہمراہ پولیس رپورٹ بھی منسلک ہے جس کے مطابق 5 سے16 ستمبر کے دوران ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور دیگر جرائم میں ملوث 1357 ملزمان گرفتار ہوئے، جن کے قبضے سے 3 کلاشنکوف، 347 پستول اور 9 دستی بم برآمد ہوئے۔
چیف سیکریٹری سندھ نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی کابینہ کے فیصلوں کے مطابق، کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف موٴثر کاررروائی کی جارہی ہے۔
آئی ایس آئی اور ایم آئی نے بھی کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن کو موثرقرار دیا۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ شہر کے تمام اضلاع میں رینجرز کو تھانے دے دیئے گئے ہیں۔ جبکہ، موبائل کمپنیوں کو بھی غیر قانونی ’سِمز‘ بند کرنے کے لئے تحریری ہدایات جاری کر دی ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے کراچی بندرگاہ سے اسلحے کی اسمگلنگ کا جائزہ لینے کی غرض سے تشکیل دیئے جانے والے ’رمضان بھٹی کمیشن‘ کی رپورٹ کے مطابق، حساس اداروں نے اسلحے کی اسمگلنگ کے معاملے سے انکار کیا ہے۔ لیکن، ان کا کہنا ہے کہ سمندری راستوں سے اسلحے کی اسمگلنگ کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
رمضان بھٹی کمیشن نے جمعرات کو ناجائز اسلحے سے متعلق تفصیلی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کر دی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سمندری راستوں کی تعداد 40 کے قریب ہے ۔ یہاں سینکڑوں لانچیں آتی جاتی ہیں۔ لیکن، کسٹم کی پوسٹیں صرف سات راستوں پر قائم ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان چوہدری محمد افتخار کی سرابراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے روبرو کراچی رجسٹری میں جمعرات کو ’امن و امان عمل درآمد کیس‘ کی سماعت کے دوران پیش کی گئی اس رپورٹ کے مطابق کسٹم کے پاس وسائل کی اشد کمی ہے، کنٹینرز، ٹرک اور دیگر گاڑیوں کو مختلف مقامات پر چیک کرنے کے لئے افرادی قوت قلیل ہونے کے ساتھ ساتھ جدید آلات کا بھی فقدان ہے۔
سماعت کے موقع پر آئی جی سندھ، ایڈیشنل آئی جی کراچی، ڈی جی رینجرز اور چیف سیکریٹری عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے گلہ کیا کہ دن رات یہ کہا جاتا ہے کہ عدالتیں فیصلے نہیں کرتیں۔ لیکن، اصل مسئلہ یہ ہے کہ چونکہ گواہوں کی حفاظت نہیں کی جاتی۔ لہذا، قاتل پکڑ میں نہیں آتے۔ ٹی وی جنرنلسٹ ولی بابر کے قتل کو کئی سال ہوگئے، لیکن اس کے قاتل آج تک نہیں پکڑے گئے۔
چیف جسٹس نے ولی بابر کیس کے گواہوں کے قاتلوں کی عدم گرفتاری پر رپورٹ بھی طلب کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 1992ء کے آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس افسر چُن چُن کر مار دیئے گئے۔ اُن کے قاتل کدھر ہیں؟ سندھ ہائیکورٹ کے حکم کے باوجود، اس کیس کے گواہوں کو تحفظ کیوں فراہم نہیں کیا گیا۔ گواہوں کا قتل بااثر افراد یا پولیس کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے مزید ریمارکس میں کہا کہ کراچی کی دکانوں پر لانچر اور اینٹی ایئر کرافٹ گن مل رہی ہیں، اگر تہیہ کرلیا جائے تو ایک گولی بھی نہیں آئے گی۔ اسلحے کی برآمدگی کے لئے کرفیو بھی تو لگایا جاسکتا ہے۔
جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دئیے کہ ہمارے زمانے میں سائیکل کرائے پر ملتی تھی۔ اب یہاں اسلحہ کرائے پر مل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون صرف کتابوں میں رکھنے کیلئے نہیں ہوتا۔
دوران سماعت چیف سیکریٹری سندھ چوہدری اعجاز نے وفاقی حکومت کی امن وامان سے متعلق سر بمہر رپورٹ بھی سپریم کورٹ میں پیش کی، جبکہ اس کے ہمراہ پولیس رپورٹ بھی منسلک ہے جس کے مطابق 5 سے16 ستمبر کے دوران ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور دیگر جرائم میں ملوث 1357 ملزمان گرفتار ہوئے، جن کے قبضے سے 3 کلاشنکوف، 347 پستول اور 9 دستی بم برآمد ہوئے۔
چیف سیکریٹری سندھ نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی کابینہ کے فیصلوں کے مطابق، کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف موٴثر کاررروائی کی جارہی ہے۔
آئی ایس آئی اور ایم آئی نے بھی کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن کو موثرقرار دیا۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ شہر کے تمام اضلاع میں رینجرز کو تھانے دے دیئے گئے ہیں۔ جبکہ، موبائل کمپنیوں کو بھی غیر قانونی ’سِمز‘ بند کرنے کے لئے تحریری ہدایات جاری کر دی ہیں۔