’انسداد دہشت گردی کے نظام میں دور رس اصلاحات کی ضرورت ہے‘

پاکستان کی عدالت عظمیٰ۔ فائل فوٹو

جسٹس آصف سعید کھوسہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں اس بات پر زور دیا کہ دہشت گردوں کو سیکورٹی فورسز کی مدد سے ہلاک کرنے سے دہشت گردی کے عفریت کو ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان کی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے لیے انسداد دہشت گردی کے پورے نظام کی خامیوں اور کمزوریوں کو دور کرنا ضروری ہے۔

سپریم کورٹ نے یہ بات سابق فوجی حکمران پرویز مشرف پر 2004ء میں ہونے والے حملے کے ملزمان کی طرف سے دائر کی گئی اپیل کے تفصیلی فیصلے میں کہی ہے۔ سپریم کورٹ نے ان چاروں ملزمان کی اپیل منظور کرتے ہوئے انہیں بری کرنے کا حکم دیا تھا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں اس بات پر زور دیا کہ دہشت گردوں کو سیکورٹی فورسز کی مدد سے ہلاک کرنے سے دہشت گردی کے عفریت کو ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات کو رونما ہونے سے روکنا ہی دہشت گردی کے معاملے کو ختم کرنے کا موثر طریقہ ہے۔

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ جرائم کی مکمل اور مہارت سے کی گئی تفتیش اور ان واقعات میں ملوث افراد کی انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں موثر پراسیکیوشن سے ہی دہشت گردی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کو جدید خطوط پر استوار کرنا ضروری ہے۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ استغاثہ، گواہوں اور عدالت کے ججوں کے مکمل تحفظ کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے۔

انسانی حقوق کے موقر غیر سرکاری ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وائس چیئرمین کامران عارف نے جمعے کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ملک کا آئین ہر ملزم کو صاف و شفاف عدالتی کارروائی کا حق دیتا ہے تاہم انہوں نے کہا کہ اسے یقینی بنانے کے لیے ملک کی فوجداری نظام انصاف میں دور رس اصلاحات وضع کرنا ضروری ہیں۔

پاکستان کو گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے دہشت گردی اور شدت پسندی کا سامنا رہا ہے جس کے لیے ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردوں اورمعاونین کے خلاف وسیع پیمانے پر کارروائیاں کی گئی ان واقعات ملوث افراد کے مقدمات کی سماعت کے لیے 2015 میں دو سال کے لیےفوجی عدالتوں کے قیام کی بھی منظور ی دی گئی بعد ازاں مارچ 2017ء میں ان کی مدت میں مزید دو سال کی توسیع دے دی گئی۔

تاہم انسانی حقوق کی تنظیمیں اور بعض دیگر حلقے کا موقف تھا کہ مروجہ عدالتی نظام کے متوازی کوئی بھی نظام، انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر سکتا ہے۔

تاہم حکومتی عہدیداروں کا موقف ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کے غیر معمولی حالات درپیش ہیں جن سے نمٹنے کے لیے غیر معمولی اقدام ضروری ہیں اور جن ملزمان کے خلاف مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے گئے اُنھیں نہ صرف صفائی کا پورا موقع دیا گیا بلکہ انہیں فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اعلیٰ عدلیہ میں اپیل کا حق بھی حاصل ہے۔