دنیا بھر میں بدھ کو 'بلیو سپر مون' کے نظارے کیے گئے۔ تاہم 31 اگست کی رات کو بھی دکھائی دینے والا چاند معمول سے زیادہ بڑا ہو گا لیکن اپنے نقطہ عروج سے قدرے کم ہو گا۔
بلیومون، یعنی نیلا چاند ، عام چاند کی طرح زرد رنگ کا ہی ہوتا ہے۔ لیکن یہ چودہویں کے عام چاند کے مقابلے میں زیادہ بڑا اور زیادہ روشن ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر اسے بلیو مون کیوں کہا جاتا ہے؟ یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔
بلو مون اصل میں انگریزی زبان کا ایک محاوہ ہے جس کا مطلب ہے ناممکن یا کوئی ایسا واقعہ جو شاذ و نادر ہی ہوتا ہو۔ اس محاورے کا اولین استعمال 16 ویں صدی میں ہوا تھا۔ چونکہ چاند نیلے رنگ کا نہیں ہوتا، اس لیے کوئی بھی ایسی چیز جس کا ہونا ممکن نہ ہو، اسے بلو مون کہا جانے لگا۔
لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ معلوم انسانی تاریخ میں ایک بار نیلے رنگ کا چاند دیکھا بھی گیا ہے۔ یہ حیران کن واقعہ 1883 میں انڈونیشیا میں پیش آیا اور وہاں لوگ مسلسل دو سال تک نیلے رنگ کا ہی چاند دیکھتے رہے۔
ہوا یوں کہ اس برس انڈونیشیا کے آتش فشاں پہاڑ" کراکوٹوا"نے پھٹ کر لاوا ا اور دھواں گلنا شروع کر دیا اور آسمان پر دھوئیں کے بادل چھا گئے، جس نے سورج کے طلوع اور غروب ہونے کے منظر کو رنگین بنا دیا اور رات کے وقت چاند زرد کی بجائے نیلا دکھائی دینے لگا۔
فل مون، سپر مون، بلیو مون اور بلیو سپر مون
ایک چمکدار ، روشن اور بڑے چاند کے لیے چار اصطلاحیں استعمال ہوتی ہیں، فل مون، سپر مون، بلو مون اور بلو سپر مون۔
فل مون ، چودہویں کا چاند ہے جو ہمیں ہر قمری مہینے نظر آتا ہے اور رات کی تاریکی میں ایک ٹھنڈی اور خوابیدہ سی مدھم روشنی بھر دیتا ہے۔
سپر مون بھی چودہویں ہی کا چاند ہے لیکن یہ معمول کے چودہویں کے چاند سے بڑا ہوتا ہے۔ ناسا کے مطابق ہم ایک سال کے دوران تین یا چار بار سپر مون دیکھتے ہیں۔ سپرمون کے بڑا اور روشن ہونے کا تعلق اس فاصلے سے ہے جو زمین اور چاند کے درمیان ہوتا ہے۔
ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ اس بار ہم جس بلو سپر مون کا نظارہ کریں گے و ہ معمول کے چودہویں کے چاند سے 40 فی صد بڑا اور 30 فی صد زیادہ روشن ہو گا۔
سپر اور بلیو مون کیسے بنتا ہے؟
چاند زمین کا ذیلی سیارہ ہے جو اس کے گرد چکر لگا رہا ہے۔ اس گردش کے دوران اس کا زمین سے فاصلہ دو لاکھ 26 ہزار میل سے دو لاکھ 51 ہزار میل کے درمیان رہتا ہے۔ جس مہینے چاند، چودہویں کی رات زمین سے کم فاصلے پر ہوتا ہے تو وہ ہمیں بڑا نظر آتا ہے۔ اسے سپر مون کہا جاتا ہے۔
بلیو مون چودہویں کے اس چاند کو کہا جاتا ہے جو کسی شمسی مہینے میں ہمیں دوسری بار دکھائی دے۔ جیسے اس بار اگست میں ہو رہا ہے۔ یکم اگست کو چاند کی چودہویں تھی اور اب 30 اگست کو بھی چاند کی چودہویں ہے۔ چونکہ 30 اگست کو ہم چودہویں کا معمول سے بڑا چاند اس مہینے دوسری بار دیکھیں گے، اس لیے یہ بلو سپر مون کہلائے گا۔
بلیومون تقریباً ڈھائی سال کے بعد آتا ہے۔ کسی ایک شمسی مہینے میں دو بار چودہویں کا چاند اس لیے آ جا تا ہے کیونکہ قمری مہینہ تقریباً ساڑھے 29 دنوں کا ہوتا ہے۔ جب کہ شمسی مہینے کے دن 30 اور 31 ہوتے ہیں۔اس فرق کی وجہ سے ڈھائی سال کے بعد کسی شمسی مہینے میں دو بار چاند کی چودہویں آ جاتی ہے۔لیکن یہ دھیان میں رہے کہ فروری میں بلو مون نہیں آتا کیونکہ لیپ کے سال کے سوا اس کے دن 28 ہوتے ہیں۔
SEE ALSO: کراچی میں ’سپر مون‘ کے نظارے، شہریوں کا جوش قابلِ دیدبلیو سپر مون چودہویں کے اس چاند کو کہا جاتا ہے جومعمول سے زیادہ بڑا اور روشن ہو اور کسی ایک شمسی مہینے کے دوران دوسری بار آیا ہو۔ یہ موقع بہت کم کم دیکھنے میں آتا ہے۔ اس سے قبل بلو سپرمون دسمبر 2009 میں دیکھا گیا تھا جب کہ آئندہ کا بلو سپرمون ناسا کے مطابق جنوری 2037 میں نظر آئے گا۔
بلیو سپر مون پر امریکہ میں پریشانی کیوں؟
امریکی ریاست فلوریڈا اور جارجیا میں رہنے والے بہت سے امریکی اس لیے پریشان ہیں کہ 30 اگست کی رات کو جب بلو سپر مون اپنے جلوے بکھیرے گا تو "ایڈالیا" مزید غضب ناک ہو جائے گا۔
ایڈالیا فلوریڈا کے ساحلوں سے ٹکرانے والے سمندری طوفان کا نام ہے جو اب فلوریڈا میں تباہی مچانے کے بعد اب جارجیا میں داخل ہو چکا ہے۔ اس وقت ایڈالیا کیٹگری تھری کا طوفان ہے اور یہ 195 کلومیٹر فی گھنٹہ سے چلنے والی ہواؤں اور موسلادھار بارشوں کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔
بدھ کی دوپہر فلوریڈا کی کئی ساحلی آبادیاں چار فٹ سے زیادہ پانی میں ڈوبی ہوئیں تھیں اور پونے دو لاکھ شہری بجلی سے محروم تھے۔ حکام نے طوفان کے راستے میں آنے والے 8 اضلاع کے مکینوں کو علاقہ چھوڑنے کا حکم دیا ہے اور مزید 14 کاوئنٹرز کے رہائشیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کا مشورہ دیا ہے۔
بلو سپر مون کا سمندری طوفان سے کیا تعلق ہے؟
یہ تو آپ جانتے ہیں کہ جب چاند کی تاریخیں چودہویں کی جانب بڑھنے لگتی ہیں اور وہ مزید روشن ہونے لگتا ہے تو سمندر کے مدو جزر میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے اور لہریں مزید بلند ہو جاتی ہیں جیسے چاند کو چھو لینے کے لیے بے تاب ہوں ۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ چاند کی کشش ثقل پانی کو اپنی طرف کھینچتی ہے جس سے سمندر کی لہریں اونچی اور جواربھاٹا بڑھ جاتا ہے۔ بلو سپر مون کا ایک ایسے موقع پر طلوع ہونا، جب سمندری طوفان پہلے ہی غضب ناک ہے، اس کی تندو تیزی میں مزید اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔
حکام نے طوفان سے متاثرہ علاقوں میں لوگوں کی مدد کے لیے ساڑھے پانچ ہزار نیشنل گارڈ اور 30 ہزار سے زیادہ امدادی کارکن تعینات کر دیے ہیں۔
دوسرے علاقوں میں جو طوفان سے محفوظ ہیں، اور دنیا بھر میں، خاص طور پر پاکستان میں لوگوں کو بلو سپر مون کا نظارہ ضرور کرنا چاہیے کیونکہ یہ ایک یادگار لمحہ ہے اور یہ موقعہ دوبارہ حاصل کرنے کے لیے آپ کو 2037 تک انتظار کرنا پڑے گا۔
اور ہاں اپنے کمنٹس میں بتائیے گا ضرور کہ آپ کو بلو سپر مون کا نظارہ کیسا لگا۔