سن ڈانس فلم فیسٹول میں بہترین عکاسی کا ایوارڈ جیتنے والی فلم، دی اوتھ

سن ڈانس فلم فیسٹول میں بہترین عکاسی کا ایوارڈ جیتنے والی فلم، دی اوتھ

امریکہ کے معروف سالانہ فلمی میلے سن ڈانس میں لورا پوئٹریس کی دستاویزی فلم The Oath نے بہترین عکاسی کا ایوارڈ حاصل کیا ہے۔ اس فلم کا ایک منفرد پہلو یہ ہے کہ اس کی کہانی دنیا کے سب سے زیادہ مطلوب شخص اسامہ بن لادن کے گرد گھومتی ہے۔ اس دستاویزی فلم میں کیوبا میں واقع گوانتانامو کے امریکی فوجی حراستی مرکز اور یمن کے مناظر کی عکاسی کی گئی ہے۔


فلم The Oath کا ایک اہم کردار ابوجندل نامی ایک شخص ہے۔ جو یمن کے دارالحکومت صنعا میں ٹیکسی چلاتا ہے اور اپنی بہتر گذر بسر کے لیے کوشش کررہاہے۔ سلیم ہمدان کی فکر اس کا تعاقب کررہی ہے۔

وہ ابوجندل کا برادر نسبتی ہے اور وہ کیوبا کے امریکی حراستی مرکز میں سات برس قید کاٹ چکاہے۔


ابوجندل ، خود کو سلیم کی بدقسمتی کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔ اس نے 1996ء میں سلیم کو القاعدہ میں شامل کرایاتھا۔ اس وقت ابوجندل ، اسامہ بن لادن کا باڈی گارڈ تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ سلیم کوئی دہشت گرد نہیں تھا۔

ابوجندل ،بن لادن کے ساتھ وفاداری کے حلف کے باوجود 2000ء میں اس سے الگ ہوگیا تھا اوراس نے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ زندگی گذارنی شروع کردی تھی۔


فلم ڈائریکٹر لورا پوئٹریس نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ فلم میں ابوجندل اور سلیم ہمدان کے درمیان تعلق کی نوعیت نسبتاً بڑے معاملات کے حوالے سے ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ وہ فیملی ڈرامہ ہے جو ہمیں نائین الیون کی تاریخ کے پس منظر میں گوانتانامو اور تفتیشی عمل تک لے جاتا ہے۔


ہمدان کو افغانستان میں گرفتار کیا گیا تھا اور گیارہ ستمبر کو امریکہ پر حملے کے کچھ ہی عرصے کے بعداسے گوانتانامومنتقل کردیا گیاتھا،جہاں وہ سات سال تک رہا۔


فلم میں ہمدان کہنا ہے کہ وہاں ایک مہینہ گذارنا گویا ایک سال گذارنے کے برابر ہے۔ میری کمر اور ٹانگ میں درد ہے اور دھوپ کی کمی کی وجہ سے مجھے خارش رہتی ہے۔

فلم ڈائریکٹر لورا پوئٹریس ،فلم میں ہمدان کا چہرہ نہیں دکھاتیں، لیکن اپنے گھروالوں کو لکھے گئے اس کے خط ، اس کا دکھ بیان کرتے ہیں۔


وہ کہنا ہے کہ گوانتانامو ایک ڈراونا خواب ہے۔ میرے لیے یہ ناقابل تصور ہے کہ اس جیل کو بنے نو سال ہوچکے ہیں۔ میرا مطلب ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کو ، جن پر کوئی الزام نہیں ہے، قانون سے بالاتر رہتے ہوئے قید میں رکھا جارہا ہے۔


ہمدان کے دفاع سے متعلق فوجی وکیل لیفٹیننٹ کمانڈربرائین مائزراس سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فوجی کمشنز کا ایک سب سے بنیادی مسئلہ جبری اقبال جرم کا استعمال ہے۔ امریکی عوام اور خاص طورپر امریکی حکومت یہ نہیں سمجھ سکتی کہ بن لادن کے پاس کاشت کار ، مکینک اور باورچی کیوں تھے۔ چونکہ وہ ہمدان کو بن لادن کے ہمراہ دیکھتے ہیں ، اس لیے سمجھتے ہیں کہ وہ بھی لازمی طورپر ایک دہشت گرد ہوگا۔

فلم ساز لورا پوئٹریس نے یمن میں اپنی توجہ ابوجندل پر مرکوزرکھی۔ دستاویزی فلم میں سامنے آنے والا جندل ایک پیچیدہ شخصیت رکھتا ہے۔ وہ کٹرمذہبی بھی ہے اور اس کی شخصیت میں کرشماتی رنگ بھی ہے۔ وہ بے گناہ شہریوں کو ہلاک کرنے والے دہشت گردوں کی مذمت کرتا ہے لیکن وہ بن لادن کے ساتھ اپنا حلف توڑنےپر رنجیدہ بھی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یمن میں القاعدہ ایک جنونی گروپ سے تبدیل ہوکر ایک مضبوط سماجی تحریک کی شکل اختیار کرچکی ہے۔

ابو جندل ، فلم میں زیادہ متاثر نہیں کرتا۔ وہ امریکہ اور اس کی خارجہ پالیسی سے نفرت کرتا ہے لیکن وہ نئی القاعدہ سے خوف زدہ بھی ہے۔

فلم کے بارے میں سیاسی تجزیہ کارعبدالغنی الاریانی نے وی اے او کو بتایا کہ انہیں بھی ایسے ہی خدشات لاحق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ القاعدہ کی دوسری نسل، پرانی نسل سے زیادہ خطرناک ہے۔ وہ عراق پر حملے کی وجہ سے منظم ہوئے اور وہ بہت برہم ہیں۔ وہ مسلمانوں اور یمنیوں سمیت ہر ایک کو دشمن سمجھتے ہیں ۔

لورا پوئٹریس نے اپنی فلم میں کسی کی طرف داری نہیں کی۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے واقعات کو ان کی اصل شکل میں پیش کیا ہے۔