فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے خیبر پختونخوا کے جنوبی علاقوں بنوں اور شمالی وزیرستان کو ملانے والے نیم قبائلی علاقے جانی خیل میں سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر جمعرات کی شام ہونے والے خودکش حملے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس واقع میں کم از کم نو اہل کار ہلاک اور پانچ زخمی ہوئے ہیں۔
تاہم سول انتظامیہ اور پولیس افسران کے درمیان خط و کتابت میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد دس اور زخمیوں کی 20 بتائی گئی ہے ۔
مقامی لوگوں اور پولیس عہدیداروں کا کہنا ہے کہ زخمیوں میں بعض کی حالت تشویش ناک ہے جس کی بنیاد پر ہلاکتوں میں اضافے کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ زخمیوں میں سیکیورٹی فورسز کی کینٹین کا ٹھیکیدار بھی شامل ہے ۔
بنوں سے تعلق رکھنے والے صحافی محمد وسیم کے مطابق موٹرسائیکل پر سوار خود کش حملہ آور نے اس وقت موٹر سائیکل پر نصب اور جسم سے بندھے بارودی مواد میں دھماکہ کیا جب سیکیورٹی فورسز کا قافلہ جانی خیل کے علاقے مالی خیل گاؤں کے قریب گزر رہا تھا۔
عینی شاہدین کے مطابق زیادہ تر سیکویرٹی اہلکار موقع پر ہلاک ہو گئے ۔ پولیس عہدیداروں کے مطابق اس حملے میں نو اہلکاروں کی لاشیں اور 17 زخمیوں کو بنوں کے کمبائنڈ ملٹری اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
SEE ALSO: افغانستان میں دہشت گرد تنظیمیں خطے میں کن مسائل کو جنم دے رہی ہیں؟کالعدم شدت پسند تنظیم حافظ گل بہادر کے عسکریت پسندوں کے شمالی وزیرستان گروپ نے اس خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے خود کش حملہ آور کی تصویر بھی جاری کر دی ہے۔ ان کی طرف سے جاری تصویر میں خود کش حملہ آور کی عمر کم سے کم 30 سال ہے جب کہ اس کا فرضی نام عمری جانی خیل ظاہر کیا گیا ہے۔
بنوں اور شمالی وزیرستان کو ملانے والے جانی خیل اور بکاخیل کے نیم قبائلی علاقے مبینہ عسکریت پسندوں کے گڑھ سمجھے جاتے ہیں اور ان علاقوں میں اس سے پہلے بھی سیکیورٹی فورسز کے قافلوں اور عام لوگوں پر ہلاکت خیز حملے ہو چکے ہیں۔
یاد رہے کہ اگست کے اختتامی عشرے میں یہ سیکیورٹی فورسز کے خلاف دوسری بڑی کارروائی ہے ۔
بائیس اگست کو بھی پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع جنوبی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کی جھڑپ میں پاکستانی فوج کے چھ اہل کار ہلاک جب کہ چار شدت پسند مارے گئے تھے۔
افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے انٹر سروسز انٹیلی جینس (آئی ایس پی آر) نے تصدیق کی تھی کہ جنوبی وزیرستان کے علاقے آسمان منزہ میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس میں چار دہشت گرد مارے گئے جب کہ دو زخمی ہو گئے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق فائرنگ کے تبادلے میں پاکستانی فوج کے چھ اہل کار جان کی بازی ہار گئے تھے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے حملے کی ذمے داری قبول کی ہے۔ تنظیم کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ گھات لگا کر سیکیورٹی فورسز کی دو گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا۔
یہ واقعات ایسے وقت میں ہوئے ہیں، جب صوبہ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اس معاملے پر پاکستان اور افغانستان میں طالبان حکومت کے درمیان بداعتمادی میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔
پاکستان کا یہ الزام رہا ہے کہ ٹی ٹی پی کے افغانستان میں محفوظ ٹھکانے ہیں، لہذٰا طالبان حکومت کو ان کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔
لیکن طالبان حکومت ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔