پاکستان میں چینی اور آٹے کے بحران کے حوالے سے حکومت کو پیش کردہ حالیہ رپورٹ کے نتیجے میں وفاقی کابینہ میں ردوبدل پر ماہرین کی رائے مختلف ہے۔
پاکستان میں چینی اور آٹے کے بحران کے حوالے سے جو رپورٹ حال ہی میں حکومت کو پیش کی گئی ہے اور جس کے نتیجے میں اس کے باوجود کہ یہ رپورٹ ابھی ابتدائی ہے۔ نہ صرف وفاقی کابینہ میں ردوبدل ہوا ہے بلکہ پنجاب میں بھی صوبائی سطح پر کچھ لوگوں کو فارغ کیا گیا ہے۔
اس رپورٹ کا حتمی نتیجہ کیا نکلے گا اور اثرات خاص طور پر سیاسی مضمرات کیا ہونگے اس بارے میں ماہرین اور واقفان حال لوگوں کے مختلف خیالات ہیں۔
ممتاز سیاسی تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بلا شبہ پاکستان کی مروجہ سیاسی روایات سے ہٹ کر حکومت کا فیصلہ تھا کہ اس رپورٹ کی روشنی میں بعض اقدامات کئے گئے۔ لیکن یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ یہ ایک عمومی اور ابتدائی رپورٹ ہے۔ اور ابھی اس حوالے سے بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ لیکن، دیکھنا یہ ہو گا کہ آگے مزید تفصیلی تحقیقات ہوتی ہے یا نہیں اور اس کے بعد کیا اقدامات کئے جاتے ہیں۔
جہاں تک سیاسی مضمرات کا تعلق ہے پروفیسر حسن عسکری نے کہا کہ اس وقت تو وفاقی یا پنجاب کی حکومت کے لئے کوئی خطرہ نظر نہیں آتا، کیونکہ سیاسی طور پر کوئی کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو مختلف الخیال سیاسی لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانا اور ان سے کوئی متفقہ فیصلہ کروانا ممکن نہیں ہو گا۔
ممتاز قانون داں علی ظفر نے جن کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے وائس آف امریکہ سے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابھی یہ صرف ایک انکوائری رپورٹ ہے۔ ابھی اس میں مزید تحقیقات کے بعد اس بات کا تعین کرنا ہو گا کہ اگر حکومت نے چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تو کیا اسے غلط اطلاعات دیکر اور گمراہ کرکے یہ اجازت لی گئی یا اسکے علاوہ اور کوئی صورت حال تھی۔ آپ اشیاء صرف اسی صورت میں برآمد کر سکتے ہیں جب وہ ملکی ضروریات سے زیادہ یا اضافی ہوں۔ اور جن لوگوں کے خلاف تحقیقات ہوئی ہے ان کا موقف ہے کہ چینی ملکی ضروریات سے زیادہ تھی۔ مگر اس کا ذخیرہ کر لیا گیا تھا اور بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اشیا صرف کا ذخیرہ کرنا بھی جرم ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگلے مرحلے میں جب ایف آئی اے تفصیلی تحقیقات کرکے حکومت کو رپورٹ پیش کرے گی، اس کے بعد ہی حکومت یہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوگی کہ کس کے خلاف کیسے اور کن بنیادوں پر عدالت میں جائے یا دوسری تادیبی کارروائیاں کی جائیں۔
انکا کہنا تھا اگر حکومت کارروائی کرے گی تو اس سے حکومت کے وقار میں اضافہ ہو گا، کیونکہ پاکستان میں ماضی میں اس شفافیت کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ لیکن، اس سب کا انحصار مزید تحقیقات پر ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا اس سے وفاق اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومتوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس خطرے سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔
لیکن ایک اور سیاسی تجزیہ کار سلمان عابد کا خیال ہے کہ فوری طور پر پی ٹی آئی کی حکومت کو کہیں بھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ وفاق اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومتوں کو بہت معمولی سی اکثریت حاصل ہے اور اتنی کمزور پوزیشن میں کوئی بھی حکومت اتنا جراتمندانہ اقدام نہیں کر سکتی، جب تک کہ اس کی پشت پر کوئی انتہائی مضبوط ہاتھ نہ ہو جو اسٹبلشمنٹ کا ہی ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چینی کے اسکینڈل میں سابقہ اور موجودہ حکمراں اشرافیہ میں سے بعض بڑے لوگوں کے ملوث ہونے کے امکانات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسلئے ان معاملات سے متعلق لوگوں کی، خواہ ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے کیوں نہ ہو، پوری کوشش ہو گی کہ تحقیقات کا سلسلہ مزید آگے نہ بڑھے۔ اور اب پاکستان میں یہ قانونی سے زیادہ سیاسی مسئلہ بن گیا ہے اور یہ حکومت کا ایک ٹیسٹ بھی ہو گا کہ وہ شفافیت کے اپنے دعووں میں کتنی مخلص ہے۔