دنیا کے چار ارب لوگ، یعنی کرہ ارض کے تین میں سے دو افراد کو بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے درکار تازہ پانی میسر نہیں ہے۔ یہ تعداد اُس سے کہیں زیادہ ہے جس کا پہلے اندازہ لگایا جاتا رہا ہے۔ یہ بات ایک نئے مطالعے سے ظاہر ہوتی ہے، جس سے اس مسئلے کے سنگینی کی واضح تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے۔
آبادی میں اضافے، صارفین کا رہن سہن اور زراعت کی اضافی ضروریات کے باعث پانی کی قلت بڑھتی جا رہی ہے۔
ارجن ہکسترا نیدرلینڈ کی 'یونیورسٹی آف ٹوینٹی' میں پانی کے انتظام کے بارے میں پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ اثرات ہر جگہ عیاں ہیں۔ ارجن نے رسالے، 'سائنس ایڈوانسز' کے لیے اس نئے مطالعے پر ایک مشترکہ مضمون تحریر کیا ہے۔
ارجن کے بقول، 'زیر زمین پارنی کی سطح نیچے جا رہی ہے، جب کہ جھیلیں خشک ہوتی جارہی ہیں۔ دریائوں میں پانی کا بہائو گھٹ گیا ہے۔ اس کے باعث، ماحولیاتی اور حیاتیاتی نظام میں تنوع کو خطرات لاحق ہیں، جس کے باعث کناروں پر آباد برادریوں کو پانی کی کم دستیابی کی صورت میں نتائج بھگتنے پڑتے ہیں، جہاں پانی کا بہائو کم ہو چکا ہے''۔
ماضی کے مطالعاتی جائزوں کے برعکس، یہ مطالعہ دنیا بھر میں سالانہ بنیاد کے بجائے، دستیاب پانی کے استعمال کا موازنہ ماہوار بنیاد پر کرتا ہے۔ اُن کے معیار کے مطابق، مطالعے میں تحقیق کاروں نے موسم کا ڈیٹا، زمین کا استعمال، زرعی اجناس کی افزائش، زراعت، گنجان آبادی اور صنعت کے عناصر کو مدِ نظر رکھا ہے۔
پانی کی قلت عام مسئلہ
مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ اس صورت حال کے نتیجے میں 1.7 ارب سےزائد افراد متاثر ہیں، جب کہ پہلے اندازوں کے مطابق یہ عدد 3 ارب افراد کا تھا۔
مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ اس 4 ارب کی آبادی میں سے نصف تعداد چین اور بھارت سے تعلق رکھتی ہے۔
ارجن نے کہا ہے مسئلے کی نوعیت عام ہے جب کہ میکسیکو، شمالی افریقہ، جنوبی افریقہ، مشرق وسطیٰ اور امریکی مغرب میں یہ مسئلہ شدید نوعیت اختیار کر چکا ہے۔
بقول اُن کے، ''اِن مقامات سے ہمارے پاس واضح اعداد و شمار موجود ہیں۔ ڈیٹا سے پتا چلتا ہے کہ پانی کی قلت کب واقع ہوتی ہے اور اس کی کیا وجوہات ہیں''۔
ارجن کہتے ہیں کہ پالیسی سازوں کے لیے یہ مطالعہ ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔