سیدو شریف کے 'گورنمنٹ ملالہ کالج فار گرلز' کی طالبات اپنی کلاسوں کا بائیکاٹ کرنے کے بعد سڑک پر نکل آئیں اور کالج کے باہر آویزاں ملالہ کی تصاویر پھاڑ ڈالیں اور ان پر پتھر برسائے۔
طالبان کے خلاف آواز اٹھانے پر عالمی شہرت پانے والی پاکستانی طالبہ ملالہ یوسف زئی کے آبائی ضلع سوات میں ایک گرلز کالج کو ان سے منسوب کرنے کے خلاف طالبات نے سخت احتجاج کیا ہے۔
بدھ کے روز سوات کے علاقے سیدو شریف کے 'گورنمنٹ ملالہ کالج فار گرلز' کی 150 سے زائد طالبات اپنی کلاسوں کا بائیکاٹ کرنے کے بعد سڑک پر نکل آئیں اور کالج کے باہر آویزاں ملالہ کی تصاویر پھاڑ ڈالیں اور ان پر پتھر برسائے۔
مشتعل طالبات کا کہنا تھا کہ کالج کو ملالہ سے منسوب کرنے کے نتیجے میں وہ دہشت گردوں کا نشانہ بن سکتی ہیں۔ طالبات نے ملالہ یوسف زئی کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔
یاد رہے کہ 2009ء میں سوات پر طالبان کے قبضے کے دوران میں لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں آواز بلند کرنے پر مشہور ہونے والی 15 سالہ ملالہ یوسف زئی ان دنوں برطانیہ میں زیرِ علاج ہیں۔ ان پر رواں سال اکتوبر میں آبائی شہر مینگورہ میں نامعلوم افراد نے اس وقت فائرنگ کی تھی جب وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ اسکول سے واپس گھر جارہی تھیں۔
بعد ازاں 'تحریکِ طالبان پاکستان' نے ملالہ پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی جب کہ اس حملے کی کئی عالمی رہنمائوں سمیت اندرونِ و بیرونِ ملک مختلف حلقوں نے سخت مذمت کی تھی۔
سوات میں کامیاب فوجی کاروائی کے بعد پاکستان کی حکومت نے ملالہ یوسف زئی کو خراجِ تحسین پیش کرنے کےلیے سیدو شریف کے 'گورنمنٹ کالج فار گرلز' کے علاوہ ملک کے مختلف شہروں میں بھی ان کے نام سے کئی تعلیمی ادارے منسوب کیے تھے لیکن اس اقدام پر ملالہ کے آبائی ضلع کے علاوہ کہیں اور احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا۔
بدھ کو ہونے والے احتجاج میں شریک طالبات کا کہنا تھا کہ انہوں نے ماضی میں پرنسپل سے کالج کی عمارت پر نصب نئے نام کی تختی ہٹانے کی کئی بار استدعا کی کیوں کہ انہیں اندیشہ ہے کہ اس طرح کالج دہشت گردوں کی نظر میں آسکتا ہے۔
احتجاج میں شریک شائستہ احمد نامی ایک طالبہ نے خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کالج پرنسپل کی جانب سے طالبات کا مطالبہ تسلیم کرنے سے حتمی انکار کے بعد انہیں احتجاج کے لیے نکلنا پڑا کیوں کہ وہ اور ان کی ساتھی طالبات طالبان سے خطرہ محسوس کرتی ہیں۔
شائستہ کا کہنا تھا کہ احتجاج کرنے والی ان کی ساتھی طالبات اس لیے ملالہ کی تصویروں پر پتھر برسا رہی ہیں کیوں کہ ان کے بقول، "وہ خود تو بیرونِ ملک منتقل ہوگئی ہے لیکن ہم جیسے جو غریب ہیں انہیں یہاں اس کے برطانیہ فرار ہوجانے کا خمیازہ بھگتنا ہوگا"۔
احتجاج میں شریک ایک اور طالبہ ماہ نور کا کہنا تھا کہ ملالہ خود تو برطانیہ چلی گئی ہے لیکن دوسری تمام طالبات کو یہیں سوات ہی میں رہنا ہے۔
ماہ نور نے سوال کیا کہ جب ملالہ کو واپس پاکستان آنا ہی نہیں توپھر آخر اس کے نام سے کالج منسوب کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
سوات انتظامیہ کے ایک مقامی اہلکار نیاز علی خان نے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ احتجاج کرنے والی طالبات انتہائی مشتعل اور برہم تھیں جنہوں نے ملالہ یوسف زئی کی اس تصویر کو بھی پھاڑ ڈالا جو انتظامیہ نے ملالہ پر حملے کے بعد کالج کی دیوار پر آویزاں کی تھی۔
نیاز علی نے بتایا کہ موقع پر پہنچنے والے حکام کی جانب سے اعلیٰ حکومتی حلقوں تک مطالبات پہنچانے کی یقین دہانی کے بعد مشتعل طالبات نے اپنا احتجاج ختم کردیا۔
یاد رہے کہ حال ہی میں اقوامِ متحدہ نے دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے ملالہ کے نام سے ایک فنڈ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے جب کہ ملالہ کے والد ضیاء الدین کو تعلیم کے لیے عالمی ادارے کا خصوصی سفیر بھی مقرر کیا گیا ہے۔
بدھ کے روز سوات کے علاقے سیدو شریف کے 'گورنمنٹ ملالہ کالج فار گرلز' کی 150 سے زائد طالبات اپنی کلاسوں کا بائیکاٹ کرنے کے بعد سڑک پر نکل آئیں اور کالج کے باہر آویزاں ملالہ کی تصاویر پھاڑ ڈالیں اور ان پر پتھر برسائے۔
مشتعل طالبات کا کہنا تھا کہ کالج کو ملالہ سے منسوب کرنے کے نتیجے میں وہ دہشت گردوں کا نشانہ بن سکتی ہیں۔ طالبات نے ملالہ یوسف زئی کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔
یاد رہے کہ 2009ء میں سوات پر طالبان کے قبضے کے دوران میں لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں آواز بلند کرنے پر مشہور ہونے والی 15 سالہ ملالہ یوسف زئی ان دنوں برطانیہ میں زیرِ علاج ہیں۔ ان پر رواں سال اکتوبر میں آبائی شہر مینگورہ میں نامعلوم افراد نے اس وقت فائرنگ کی تھی جب وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ اسکول سے واپس گھر جارہی تھیں۔
بعد ازاں 'تحریکِ طالبان پاکستان' نے ملالہ پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی جب کہ اس حملے کی کئی عالمی رہنمائوں سمیت اندرونِ و بیرونِ ملک مختلف حلقوں نے سخت مذمت کی تھی۔
سوات میں کامیاب فوجی کاروائی کے بعد پاکستان کی حکومت نے ملالہ یوسف زئی کو خراجِ تحسین پیش کرنے کےلیے سیدو شریف کے 'گورنمنٹ کالج فار گرلز' کے علاوہ ملک کے مختلف شہروں میں بھی ان کے نام سے کئی تعلیمی ادارے منسوب کیے تھے لیکن اس اقدام پر ملالہ کے آبائی ضلع کے علاوہ کہیں اور احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا۔
بدھ کو ہونے والے احتجاج میں شریک طالبات کا کہنا تھا کہ انہوں نے ماضی میں پرنسپل سے کالج کی عمارت پر نصب نئے نام کی تختی ہٹانے کی کئی بار استدعا کی کیوں کہ انہیں اندیشہ ہے کہ اس طرح کالج دہشت گردوں کی نظر میں آسکتا ہے۔
احتجاج میں شریک شائستہ احمد نامی ایک طالبہ نے خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کالج پرنسپل کی جانب سے طالبات کا مطالبہ تسلیم کرنے سے حتمی انکار کے بعد انہیں احتجاج کے لیے نکلنا پڑا کیوں کہ وہ اور ان کی ساتھی طالبات طالبان سے خطرہ محسوس کرتی ہیں۔
شائستہ کا کہنا تھا کہ احتجاج کرنے والی ان کی ساتھی طالبات اس لیے ملالہ کی تصویروں پر پتھر برسا رہی ہیں کیوں کہ ان کے بقول، "وہ خود تو بیرونِ ملک منتقل ہوگئی ہے لیکن ہم جیسے جو غریب ہیں انہیں یہاں اس کے برطانیہ فرار ہوجانے کا خمیازہ بھگتنا ہوگا"۔
احتجاج میں شریک ایک اور طالبہ ماہ نور کا کہنا تھا کہ ملالہ خود تو برطانیہ چلی گئی ہے لیکن دوسری تمام طالبات کو یہیں سوات ہی میں رہنا ہے۔
ماہ نور نے سوال کیا کہ جب ملالہ کو واپس پاکستان آنا ہی نہیں توپھر آخر اس کے نام سے کالج منسوب کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
سوات انتظامیہ کے ایک مقامی اہلکار نیاز علی خان نے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ احتجاج کرنے والی طالبات انتہائی مشتعل اور برہم تھیں جنہوں نے ملالہ یوسف زئی کی اس تصویر کو بھی پھاڑ ڈالا جو انتظامیہ نے ملالہ پر حملے کے بعد کالج کی دیوار پر آویزاں کی تھی۔
نیاز علی نے بتایا کہ موقع پر پہنچنے والے حکام کی جانب سے اعلیٰ حکومتی حلقوں تک مطالبات پہنچانے کی یقین دہانی کے بعد مشتعل طالبات نے اپنا احتجاج ختم کردیا۔
یاد رہے کہ حال ہی میں اقوامِ متحدہ نے دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے ملالہ کے نام سے ایک فنڈ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے جب کہ ملالہ کے والد ضیاء الدین کو تعلیم کے لیے عالمی ادارے کا خصوصی سفیر بھی مقرر کیا گیا ہے۔