امریکہ میں کرونا لاک ڈاون کی وجہ سے اس وقت امریکی محکمہ خارجہ کے یوتھ ایکس چینج پروگرام کے تحت 15 سے 17 سال کی عمروں کے 70 سے زیادہ طالب علم پھنس کر رہ گئے ہیں۔ یہ طالب علم اپنے میزبان گھرانوں کے ساتھ مختلف امریکی ریاستوں میں رہ رہے ہیں اور گزشتہ دو ہفتوں سے پاکستان سے کسی خصوصی طیارے کے انتظار میں اپنا رخت سفر باندھے بیٹھے ہیں مگر ان کی فلائٹ کا شیڈول بار بار تبدیل ہو رہا ہے جس کی وجہ سے وہ بے یقینی اورپریشانی کا شکار ہیں۔
وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں امریکہ کی مختلف ریاستوں میں موجود ان طالب علموں نے کہا کہ وہ چاہتے کہ انہیں گو مگو میں رکھنے کی بجائے واضح طور پر بتا دیا جائے کہ پاکستانی حکومت ان کی واپسی کے لیے طیارے کا انتظام کب کرتی ہے، یا وہ ابھی کچھ نہیں کر رہے۔
ایری زونا میں موجود نوشہرہ کے حمزہ خٹک نے بتایا کہ کورونا لاک ڈاون کی وجہ سے ان کی میزبان فیملی جلد ہی اپنی ملازمت سے فارغ ہونے والی ہے، جس کے بعد وہ ان کی میزبانی نہیں کر پائے گی اور ایسےحالات میں وہ اپنے لئے نہ تو کوئی میزبان فیملی تلاش کر سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی گھرانا انہیں اپنے گھر میں مہمان رکھنے کو تیار ہو گا۔ اور اگر اس دوران ان کا ویزا ختم ہو گیا تو ان کے لئے مسائل مزید بڑھ سکتے ہیں۔
میری لینڈ میں موجود لاہور کے طالب علم نوفل کامران نے کہا کہ وہ ابھی پاکستان واپس نہیں جانا چاہتے کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ ایسے وقت میں سفر سے وہ کرونا وائرس کا نشانہ بن سکتے ہیں اور پاکستان جا کر اپنے والدین کو اس میں مبتلا کر سکتے ہیں۔ جب کہ یہاں کرونا کی صورت میں ان کا علاج پاکستان کی نسبت زیادہ بہتر طریقے سے ہو سکتا ہے۔
ایری زونا میں موجود کراچی کی طالبہ مدیحہ شعیب بھی نوفل کامران کی ہم خیال تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اور تمام ایکس چینج اسٹوڈنٹس امریکہ اور پاکستان کےدرمیان فلائٹس کے سلسلے میں کمیونیکیشن کے فقدان کی وجہ سے پریشان ہیں اور یہ پریشانی ان سب کی صحت پر برا اثر ڈال رہی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ چونکہ وہ کہ ایک پہاڑی علاقے میں ہیں، اس لیے اپنی فرسٹریشن دور کرنے کے لیے جاگنگ اور واکنگ کر رہی ہیں اور چاہتی ہیں کہ جو بھی فیصلہ ہو جلد ہو جائے۔
منی سوٹا سے پاکستانی کنٹرول کے کشمیر کی طالبہ مشعل واجد کا بھی یہ ہی کہنا تھا کہ وہ کرونا کی وبا کے دوران امریکہ میں قیام کو اپنے لیے محفوظ خیال کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس وقت ان کی آن لائن کلاسز جاری ہیں، لیکن روزانہ اسکول جا کر پڑھنے اور گھر کے کمرے میں بند رہ کر پڑھنے میں بہت فرق ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ پریشانی کے ان حالات میں خود کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھ رہی ہیں اور کرونا سے پہلے اور کرونا کے بعد اپنی اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کی زندگیوں میں آنے والی تبدیلیوں کو بلاگ کی صورت میں ڈھال رہی ہیں، جب کہ اپنے مسلمان میزبان گھرانے کے ساتھ مل کر روزے رکھ رہی ہیں۔
کنساس میں موجود مردان کے محمد یاور نے کہا کہ وہ اپنا وقت ایکسرسائز اور بورڈ گیمز میں مصروف رہ کر اور روزے رکھ کر گزار رہے ہیں اور اس دوران ایکس چینج سال میں حاصل کی گئی اپنی کامیابیوں کو یاد کر کے اپنی موجودہ فرسٹریشن کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کیلی فورنیا میں موجود کراچی کی طالبہ آمنہ شہزاد نے کہا کہ کرونا کے شروع دنوں میں وہ پریشان تھیں، لیکن اب انہوں نے اس وقت کا مثبت استعمال شروع کر دیا ہے۔ وہ اپنی ہوسٹ فیملی کے ساتھ آٹو کا کام سیکھ رہی ہیں اور انہوں نے اپنے دو ایکس چینج ساتھیوں نوفل کامران اور علی اصغر کے ساتھ مل کر ایک نغمہ تیار کیا ہے جسے انسٹا گرام پر پوسٹ کر دیا ہے۔
درگئی مالاکنڈ کی میمونہ جان نے نارتھ کیرولائنا سے بتایا کہ وہ زیادہ پریشان نہیں ہیں اور اپنا وقت اپنے ارد گرد کے لوگوں کے لیے ماسک تیار کرنے اور پاکستان اور دوسرے ملکوں میں اپنے دوستوں کو پریذنٹیشن دے کر گزار رہی ہیں۔
خانیوال سےتعلق رکھنے والے علی اصغر نے واشنگٹن سے بتایا کہ دوسرے ملکوں کے ایکس چینج اسٹوڈنٹس واپس جا چکے ہیں، لیکن پاکستانی اسٹوڈنٹس سے پاکستانی سفارت خانے نے خود سے کوئی رابطہ نہیں کیا اور جب ان سے ای میل کے ذریعے بمشکل رابطہ ہوا تو بھی انہوں نے ابھی تک ان کے لئے کوئی واضح پروگرام نہیں بتایا ہے۔
صالحہ جنید نے ٹیکساس سے بتایا کہ اب جب کہ ان کا ایکس چینج پروگرام مختصر ہو گیا ہے اور انہیں وقت سے پہلے پاکستان جانا پڑ رہا ہے تو بہت سے کام رہ گئے ہیں جو میں کرنا چاہتی تھی لیکن سب سے زیادہ افسوس یہ ہے کہ پرام اور گریجو ایشن کی تقریب میں شرکت نہیں کر سکوں گی جس کا ہم سب کو ہی بہت انتظار تھا۔
وائس آف امریکہ نے اس سلسلے میں پی آئی اے کے ترجمان عبد اللہ حفیظ خان سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ہمیں امریکہ سے بہت زیادہ پیغامات موصول ہو رہے ہیں جن میں طالب علم بھی شاملہیں، جن کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان واپس آنا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں پی آئی اے نے جمعے کے روز امریکی حکومت کو باضابطہ طور پر درخواست دی ہے کہ وہ پی آئی اے کو سپیشل ریلیف پروازیں چلانے کی اجازت دے تاکہ وہ ان پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو واپس لے جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ اپنی درخواست میں انہوں نے اس امریکی ٹیم کے حوالے سے، جس نے فروری یا مارچ میں پاکستان کا دورہ کر کے پاکستان کے ایئر پورٹس کی سیکیورٹی کے انتظامات کو معیاری پایا تھا اور اس کو سراہا تھا، کہا ہے کہ پی آئی اے سیکیورٹی کے ان تمام معیاروں کو پورا کرتا ہے جو امریکہ کو درکار ہیں، اس لئے اسے یہ خصوصی پروازیں چلانے کی اجازت دی جائے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اگلے چند روز میں امریکی حکومت کی طرف سے کوئی مثبت جواب آئے گا اور اگر ایسا ہوا تو مئی کے پہلے یا دوسرے ہفتے میں پی آئی کی خصوصی ریلیف پروازیں، امریکہ میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو وطن واپس لے آئیں گی اور پاکستان میں پھنسے امریکی شہریوں اور رہائشیوں کو امریکہ واپس پہنچا دیں گی۔
ان کا کہنا ہے کہ جیسے ہی اجازت ملی، اسے مشتہر کر دیا جائے گا۔ وطن واپسی کے خواہش مند پاکستانی اس بارے میں تازہ معلومات کے لیے اپنے علاقے کے قونصل خانے سے رابطے میں رہیں۔