گوگل نے امریکہ کی 40 ریاستوں میں صارفین کی لوکیشن ٹریک کرنے سے متعلق جاری تحقیقات میں 39 کروڑ ڈالر سے زائد کی ادائیگی کرکے تصفیہ کرلیا ہے۔
امریکہ کی ان ریاستوں نے 2018 میں خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کی ایک خبر کے بعد تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔
اس خبر میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ گوگل استعمال کرنے والے صارفین اگر اس میں دیے گئے فیچر ’لوکیشن ہسٹری‘ کو بند یا ڈس ایبل بھی کردیں، تو اس کے باوجود گوگل صارفین کی موجودگی کے مقام یا لوکیشن سے متعلق ڈیٹا حاصل کرتا رہتا رہے۔
امریکی ریاستوں کے تمام اٹارنی جنرل اس تصفیے کو صارفین کی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔
یہ نجی رازداری سے متعلق امریکہ کی تاریخ کا ایسا سب سے بڑا کیس تھا جس میں متعدد ریاستیں فریق تھیں۔
یہ تصفیہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب رازداری یا پرائیویسی اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کی بڑھتی ہوئی نگرانی کے باعث سیاست دان شدید برہمی کا اظہار کر رہے ہیں اور ایسے اداروں کے ریگولیٹر بھی ان امور کی کڑی جانچ میں مصروف ہیں۔
رواں برس جون میں امریکہ کی سپریم کورٹ نے اسقاطِ حمل کے حق کو حاصل آئینی تحفظ ختم کردیا تھا۔
اس کے بعد سے اسقاطِ حمل کرانے کے لیے آن لائن انفارمیشن حاصل کرنے والی خواتین میں رازداری سے متعلق تحفظات بھی بڑھ گئے تھے۔
SEE ALSO: میٹانے لاکھوں فیس بک صارفین کو پاس ورڈ چوری کرنے والی ایپس سےخبر دار کردیاریاست کنیٹی کٹ کے اٹارنی جنرل ولیم ٹونگ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ 39 کروڑ 15 لاکھ ڈالر کا تصفیہ صارفین کی تاریخی فتح ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ لوکیشن ڈیٹا انتہائی حساس اور گراں قدر ڈیٹا ہے جو گوگل جمع کرتا ہے۔ صارفین کے پاس اس ٹریکنگ کو بند کرنے کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔
گوگل کا کہنا ہےکہ اس نے کئی برس قبل یہ مسئلہ حل کر دیا تھا جس میں ٹریکنگ کا فیچر بند کرنے کے باوجود لوکیشن کی معلومات گوگل کو حاصل ہوتی تھیں۔
کمپنی کے ترجمان ہوزے کاستیندا نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ مسلسل بہتری کے ساتھ ہم نے ان تحقیقات پر تصفیہ کیا ہے جو ایک ایسی زائد المیعاد پالیسی پر شروع کی گئی تھیں جنھیں ہم برسوں پہلے بدل چکے ہیں۔
لوکیشن ٹریکنگ کے ذریعے سے کمپنیاں صارفین کو ان مقامات کے مطابق اشتہار دکھاتی ہیں جہاں جہاں وہ جاتےہیں۔
یہ صارفین کی معلومات جمع کرنے کے ذرائع میں شامل ایک اہم فیچر ہے، جو گوگل کی مالک کمپنی ’الفابیٹ‘ کو اشتہاروں کی مد میں سالانہ 200 ارب ڈالر کما کر دیتے ہیں۔ اس کمپنی کی مارکیٹ ویلیو 12 کھرب ڈالر ہوچکی ہے۔
سن 2018 میں ’اے پی‘ نے اپنی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا تھا کہ اینڈرائیڈ ڈیوائسز اور آئی فونز کے صارفین اپنی سیٹنگ میں جاکر اگر گوگل کی لوکیشن ٹریکنگ کا فیچر بند بھی کردیں تو اس کے باوجود گوگل ان کی لوکیشن ڈیٹا جمع کرتا ہے۔
پرنسٹن کے کمپیوٹر سائنس کے محققین نے ’اے پی‘ کی درخواست پر اس بات کی تصدیق کی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
’اے پی‘ نے رپورٹ کیا تھا کہ گوگل کے اس فیچر کی وجہ تقریباً دو ارب صارفین کی معلومات کی رازداری اثر انداز ہوئی تھی۔ ان میں آئی فون کے کروڑوں صارفین بھی شامل تھے، جو میپ سرچ کے لیے گوگل کا استعمال کرتے ہیں۔
اس معاملے کی تحقیقات کرنے والے حکام کا کہنا تھا کہ لوکیشن ڈیٹا کمپنی کے ڈیجیٹل ایڈورٹائزنگ بزنس کا کلیدی حصہ ہے۔
حکام کے بقول یہ کمپنی کے صارفین کے جمع کیے جانے والے ڈیٹا میں لوکیشن کی معلومات حساس ترین نوعیت رکھتی ہے۔
حکام کے مطابق لوکیشن سے متعلق معمولی معلومات بھی کسی شخص کی شناخت اور روز مرہ معمول کے بارے میں جاننے کے لیے کافی ہوسکتی ہیں۔ گوگل اپنے کسٹمرز سے ملنے والے اشتہارات کو متعلقہ صارفین تک پہنچانے کے لیے بھی لوکیشن ڈیٹا کا استعمال کرتا ہے۔
ریاستی اٹارٹنیز کا کہنا تھا کہ گوگل 2014 سے اپنی لوکیشن ٹریکنگ کے بارے میں صارفین کو گمراہ کررہا تھا جو کہ ریاستی سطح پر پائے جانے والے صارفین کے تحفظ کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی تھی۔
گوگل نے حالیہ تصفیے میں اپنے طرزِ عمل کو مزید شفاف بنانے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔
اس میں یہ بھی شامل ہے کہ جب بھی کوئی صارف لوکیشن بند کرے یا کھولے گا تو اسے اضافی معلومات فراہم کی جائے گئی اور ایک ویب پیج پر صارفین کو اس تمام معلومات کی تفصیل بتائی جائے گی جن کا ڈیٹا گوگل جمع کررہا ہے۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔