پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کا برطانوی اخبار کو دیا گیا ایک انٹرویو پاکستان کے سیاسی اور عوامی حلقوں میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ عمران خان نے 'فنانشل ٹائمز' کو دیے گئے انٹرویو میں امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ"سائفر معاملہ ختم ہو چکا اور میں اب آگے بڑھ چکا ہوں۔ '
پاکستان میں حکمراں اتحاد اسے عمران خان کا ایک اور یوٹرن قرار دے رہا ہے جب کہ عمران خان کا یہ کہنا ہے کہ جب سے وہ سیاست میں آئے ہیں، امریکہ سمیت دیگر ملکوں کے ساتھ برابری کی سطح پر باوقار تعلقات کے خواہاں رہے ہیں۔
خیال رہے کہ عمران خان نے رواں برس اپریل میں یہ الزام عائد کیا تھا کہ اُن کی حکومت گرانے میں امریکہ کا ہاتھ تھا اور امریکی سفارت کار نے پاکستانی سفیر کو بلا کر یہ پیغام دیا تھا کہ اگر عمران خان کی حکومت ختم نہ ہوئی تو پاکستان کے لیے مشکلات ہوں گی۔
امریکہ نے عمران خان کے ان الزامات کو کئی مواقعے پر سختی سے مسترد کیا تھا جب کہ پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے بھی امریکی سازش کے تاثر کو رد کیا تھا۔
عمران خان کے تازہ بیان کے بعد یہ معاملہ ایک بار پھر خبروں میں ہے۔ بعض سیاسی تجزیہ کار اسے عمران خان کا ایک اور 'یو ٹرن' قرار دے رہے ہیں جب کہ بعض کا کہنا ہے کہ عمران خان امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات چاہتے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ عمران نیازی نے فنانشل ٹائمز سے انٹرویو میں اپنی بیرونی سازشی تھیوری کی تردید کردی۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے اپنے سیاسی مفادات کے لیے پاکستان کے بیرونی تعلقات کو نقصان پہنچانے میں کردار ادا کیا اور پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے والے کی دروغ گوئی اور غداری سے قوم حیران ہے۔
سینئر تجزیہ کار رانا مبشر کہتے ہیں عوامی سطح پر امریکہ مخالف بیانیہ اپنانا عمران خان کا درست اقدام نہیں تھا جسے اب وہ تبدیل کر کے درست سمت میں جا رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ حالیہ مہینوں میں عمران خان کے ساتھ جب بھی ملاقات ہوئی تو انہوں نے یہ سوال تواتر سے اٹھایا کہ امریکہ سے تعلقات کی مستقل خرابی ان کے اپنے تشخص اور جماعت کے لیے نقصان دہ ثابت ہورہی ہے۔
ُ'پی ٹی آئی رہنما بھی چاہتے تھے کہ عمران خان یہ بیانیہ ترک کر دیں'
رانا مبشر کے بقول پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے بھی عمران خان کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ امریکہ مخالف بیانیہ ترک کردیں۔ اگرچہ عمران خان کو یہ بات کچھ تاخیر سے سمجھ آئی لیکن چلیں آگئی کہ امریکہ کے خلاف بہت زیادہ آگے جانے سے انہیں نقصان پہنچ رہا ہے۔
تجزیہ نگار ارشاد عارف سمجھتے ہیں کہ عمران خان کا امریکی سازش کے بیانیے کو ترک کرنے کا یہ بیان کوئی پالیسی شفٹ نہیں ہے بلکہ وہ تواتر سے یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ امریکہ کے ساتھ برابری کی بنیاد پر اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ عمران خان کا اقتدار سے علیحدگی کے بعد یہ بیانیہ تھا کہ انہیں امریکہ کی جانب سے سازش کے ذریعے وزارتِ عظمی سے ہٹایا گیا لیکن اب وہ اس وجہ سے بھی اسے چھوڑنا چاہتے ہیں کہ ان کے بیانیے میں دو نئے عنوان شامل ہوچکے ہیں۔
ان کے بقول وہ دو نئے بیانیے یہ ہیں کہ موجودہ حکومت معاشی استحکام کے نعرے پر اقتدار میں آئی تھی لیکن وہ نہ تو معاشی بہتری لاسکی ہے نہ ہی مہنگائی میں کمی واقع ہوئی ہے اور اس کے علاوہ عمران خان پر لانگ مارچ میں ہونے والے قاتلانہ حملے نے بھی ان کی عوامی سطح پر پذیرائی میں اضافہ کیا ہے۔
مبصرین سمجھتے ہیں کہ امریکہ مخالف بیانیہ اپنانے سے عمران خان کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں ملک میں حالیہ مہینوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں ان کی جماعت نے واضح برتری حاصل کی۔
رانا مبشر کہتے ہیں کہ عمران خان بطور وزیر اعظم نو فی صد مقبولیت رکھتے تھے جو کہ حالیہ دنوں میں بڑھ کہ 40 فی صد تک پہنچ گئی ہے جس کی وجہ میں ان کے بقول پی ٹی آئی کی عوامی مہم کے علاوہ موجودہ حکومت کی نااہلی بھی شامل ہے۔
ارشاد عارف کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ امریکہ مخالف بیانیے سے دونوں ملکوں کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہوں اور عمران خان کی اپنی شخصیت بھی متاثر ہوئی ہو لیکن اس کے باوجود اس بیانیے نے ان کی عوامی مقبولیت میں اضافہ کیا۔
وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے عمران خان کے انٹرویو پر ردِ عمل میں کہا کہ امریکی سازش کا بیانیہ پسِ پشت ڈالنے سے بات ختم نہیں ہو گی بلکہ عمران خان کو جواب دینا پڑے گا کیوں کہ اس بیانیے پر پورے ملک میں انتشار اور جھوٹ پھیلایا گیا۔
کیا عمران خان امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کر پائیں گے؟
کیا امریکہ مخالف بیانیے کو ترک کرنے کے بعد عمران خان امریکہ سے اپنے تعلقات بحال کرپائیں گے؟ اس سوال کے جواب میں ارشاد عارف نے کہا کہ سیاسی بیانات دو ملکوں کے تعلقات کو زیادہ متاثر نہیں کرتے وہ بھی ایشیائی ممالک جہاں کی سیاست میں ملکوں کے تعلقات زیر بحث رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ ہفتے امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ پاکستان کے عوام کے جذبات کی قدر کرتے ہیں۔
ارشاد عارف کہتے ہیں کہ امریکہ عوام کی سوچ کو دیکھتا ہے، لہذٰا سیاسی بیانات تعلقات کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کی نظر میں امریکہ مخالف بیانیہ ترک کرنے سے عمران خان کے حامیوں کی جانب سے ان کی حمایت میں کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔
رانا مبشر بھی سمجھتے ہیں کہ امریکی مداخلت اور سائفر کے حوالے سے عمران خان نےجو کہنا تھا کہہ دیا اور ان کے زیادہ تر حامی اس بات پر یقین بھی رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب اگر عمران خان امریکہ مخالف بیانیے سے ایک قدم پیچھے بھی ہٹتے ہیں تو ان کے حامی برا نہیں منائیں گے۔
یاد رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے 27 مارچ کو اسلام آباد میں ایک جلسہ عام سے خطاب کے دوران اپنی جیب سے ایک مبینہ خط نکالا اور اُسے لہراتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ متحدہ اپوزیشن ایک ’بیرونی سازش‘ کے ذریعے اُن کی حکومت کو گرانے کی کوشش کر رہی ہے اور یہ خط اس مبینہ سازش کا ثبوت ہے۔