’’ٹیرر فنڈنگ‘‘ کے الزام میں سات کشمیری سیاسی کارکن گرفتار

فائل

این آئی اے نے جون کے اوائل میں سرینگر، دِلیّ اور بھارتی ریاست ہریانہ کے سونی پت علاقے میں جن افراد کے دفتروں اور گھروں پر چھاپے مارے تھے ان میں یہ ساتوں افراد اور بعض دوسرے لیڈر، سرگرم کارکن اور تاجر شامل ہیں

بھارت کی قومی تحقیقاتی ایجنسی، نیشنل انوسٹیگیشن ایجنسی (این آئی اے) نے سات کشمیری لیڈروں اور سرگرم کارکنوں کو بیرونِ ملک سے غیر قانونی چینلز کے ذریعے بھاری رقوم حاصل کرکے انہیں دہشت گردی کی کارروائیوں اور متنازعہ علاقے میں عوامی سطح پر بدامنی کو طول دینے کے لئے استعمال کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔


جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے اُن میں نیشنل فرنٹ کے سربراہ نعیم احمد خان، جموں کشمیر لیبریشن فرنٹ کے ایک دھڑے کے لیڈر فاروق احمد ڈار عرف بِٹہ کراٹے، سرکردہ آزادی پسند راہنما سید علی شاہ گیلانی کے داماد محمد الطاف شاہ اور دو دوسرے معتمدین معراج الدین کلوال اور ایاز اکبر اور ایک اور سرکردہ سیاسی اور مذہبی راہنما میر واعظ عمر فاروق کے میڈیا سیکریٹری شاہد الاسلام شامل ہیں۔


این آئی اے نے جون کے اوائل میں سرینگر، دِلیّ اور بھارتی ریاست ہریانہ کے سونی پت علاقے میں جن افراد کے دفتروں اور گھروں پر چھاپے مارے تھے ان میں یہ ساتوں افراد اور بعض دوسرے لیڈر، سرگرم کارکن اور تاجر شامل ہیں۔


بعد میں انہیں دِلی بلا کر اُن کی پوچھ گچھ کی گئی تھی۔ این آئی اے کا الزام ہے کہ انہوں نے پاکستان اور بعض دوسرے ممالک سے حوالہ یا غیر قانونی چینلز کے ذریعے سے بھاری رقوم حاصل کیں، جنہیں شورش زدہ علاقے میں دہشت گردی کو فروغ اور عوامی سطح پر بدامنی کو طول دینے لے لئے استعمال کیا گیا۔


تحقیقاتی ایجنسی نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ 23 مقامات پر ڈالے گئے ان چھاپوں کے دوران ایک کروڑ پچاس لاکھ روپے کی رقم جس کا کوئی حساب کتاب موجود نہیں تھا، تجریمی دستاویزات، موبائیل فون اور لیپ ٹاپ وغیرہ ضبط کئے گئے۔ ہشتاد سالہ سید گیلانی جو کئی ماہ سے سرینگر میں واقع اپنے گھر میں نظربند ہیں کے خلاف این آئی اے نے باظابطہ طور پر مقدمہ درج کر دیا تھا۔


استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے قائدین کے ایک اتحاد نے ان گرفتاریوں کو ’’انتقام پر مبنی، من مانی اور غیر قانونی کارروائی‘‘ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف منگل کو نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں ایک عام احتجاجی ہڑتال کرنے کی اپیل جاری کر دی ہے۔ اتحاد نے جس میں سید گیلانی اور میر واعظ عمر بھی شامل ہیں یہ الزام دہرایا ہے کہ تحریکِ مزاہمت سے وابسطہ لیڈروں اور کارکنوں کو ’’جھوٹے مقدمات میں پھنسایا جا رہا ہے اور کشمیریوں کی حق پر مبنی جدوجہد کو بدنام کرنے اور اس کے ساتھ دہشت گردی کا لیبل نتھی کرکے عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘‘۔

لیکن، این آئی اے کا کہنا ہے کہ اس کے ہاتھ ایسی دستاویزات اور دوسرے ٹھوس ثبوت لگے ہیں، جو گرفتار شدگان کے حوالہ چینلز اور دوسرے غیر قانونی طریقوں سے رقوم حاصل کرکے انہیں ان کی طرف سے بھارت دشمن سرگرمیوں اور تخریبی کارروائیوں کے لئے استعمال کرنے کی تصدیق کرتے ہیں۔


اُدھر پیر کو بھارتی سپریم کورٹ نے 1989-90 میں نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں شورش کے آغاز پر 215 مقامی ہندؤں کے مبینہ قتل سے متعلق کیسوں کی دوبارہ تحقیقات کرانے کے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے۔ عدالتِ عالیہ کے ایک ڈویژن بینچ نے 'روٹس آف کشمیر' کی طرف سے دائر کی گئی ایک درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ 27 سال کا عرصہ گزرنے کے بعد ان کیسز کی تحقیقات کے سلسلے میں شواہد اور ثبوت اکٹھا کرنا ممکن نہیں۔۔ عدالت نے استفسار کیا 'آپ 27 سال میں کہاں تھے'؟ درخواست گزار کے وکیل وِکاس پڈورہ نے عوالت کو بتایا کہ کشمیری پنڈتوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اس لئے وہ معاملے کی پیروی نہیں کر سکے۔