اتوار کو نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سرینگر کے ایک کیتھولک گرجا گھر میں منعقد کی گئی اپنی نوعیت کی پہلی تقریب پر مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کا بھرپور مظاہرہ کیا گیا۔
تقریب کا اہتمام شہر کے مصروف مولانا آزاد روڈ پر واقع ہولی فیملی کیتھولک چرچ کی انتظامیہ نے کیا تھا۔
تقریب کے دوران، گرجا گھر میں 105 کلوگرام وزنی نئی گھنٹی لگائی گئی جسے ایک کشمیری عیسائی کنبے نے تحفے کے طور پر پیش کیا۔
اس گرجا گھر کو 1896ء میں تعمیر کیا گیا تھا، جب ہندوستان پر برطانیہ کا راج تھا۔ لیکن یہاں اُس وقت جو گھنٹی نصب کی گئی تھی وہ نصف صدی پہلے لڑی گئی تیسری عرب-اسرائیل جنگ کے دوران گرجا گھر میں پیش آنے والی آتش زنی کی ایک واردات کے دوران خراب ہو کر ناقابلِ استعمال ہو گئی تھی۔
نئی گھنٹی لگانے کی اس تقریب کو منتظمین نے کشمیر کے تکثیریتی مزاج کو برقرار رکھتے ہوئے مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کے مظاہرے میں بدل دیا۔
تقریب پر دوسرے مذاہب کے عام پیروکاروں کے ساتھ ساتھ ان کی چند معروف شخصیات کو بھی مدعو کیا گیا تھا جنہوں نے اہلِ کلیسا کے ساتھ مل کر گرجا گھر میں نصب کی گئی نئی گھنٹی بجائی۔
گرجا گھر کے ایک عہدیدار سڈنی مارک راتھ نے بتایا کہ ایسا کشمیر کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔
اعلیٰ پارش پادری فادر رائے میتھیوز نے اس کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ تقریب کے انعقاد کا مقصد گرجا گھر میں نئی گھنٹی لگانے کے ساتھ ساتھ کشمیر میں پائی جانے والی مذہبی رواداری کو مزید فروغ دینا تھا، ''جو کوشش کامیاب رہی''۔
گرجا گھر کے ایک منتظم نے کہا کہ تقریب نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں عیسائیوں کی بہت ہی کم تعداد پر مشتمل فرقے کے لئے تاریخی اہمیت کی حامل تھی، کیونکہ اس پر تمام دوسرے مذہبی فرقوں کے نمائندوں کو شرکت کی دعوت دیکر پیار و محبت کے پیغام کو عام کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔