جنوبی سوڈان کی خواتین وکلا کا کہنا ہے کہ انہیں روزانہ کی بنیادوں پر تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور ایک خاتون جج کا کہنا ہے کہ یہ بات خواتین ججوں پر بھی صادق آتی ہے جب کہ ملک کے دیگر شعبوں میں بھی پیشہ ور خواتین انہی امتیازی رویوں کا سامنا ہے۔
ساؤتھ سوڈان اِن فوکس میں بات کرتے ہوئے، خاتون جج مارتھا جوبے جرے مایا کا کہنا تھا کہ معاشرہ اس سوچ کو تقویت دیتا ہے کہ خواتین کمزور صنف سے تعلق رکھتی ہیں، جس کے اثرات مختلف شعبوں میں کام کرنے والی خواتین پر مرتب ہوتے ہیں۔
مارتھا جرے مایا کا کہنا تھا کہ معاشرے کی بنت سے حقیقی طور ایسی سوچ ابھرتی ہے جس سے عمومی طور پر خواتین وکلا اور دیگر شعبوں میں کام کرنے والی خواتین متاثر ہوتی ہیں۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں خواتین اب اپنے گھر بار کی قیادت کر رہی ہیں اور چند ایک تو اپنے شوہروں کی غیر موجودگی میں اپنےبچوں کی کفالت خود کر رہی ہیں، لیکن معاشرہ انہیں ایک کمزور عنصر یا کمزور شخص کے طور پر دیکھتا ہے۔
جنوبی سوڈان میں جہاں زیادہ تر لوگ پدری برتری کی سوچ کے مالک ہیں، لیکن سب ایسا نہیں سوچتے۔ مارتھا کا کہنا تھا کہ جب تک لوگوں کی سوچ میں تبدیلی نہیں آتی، تب تک خواتین کو امتیازی رویوں کا سامنا رہے گا۔
جرے مایا نے بتایا کہ ملک میں اس وقت 40 کے قریب خواتین جج ہیں، اور انہیں ویسے ہی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا جیسا کہ خواتین وکلا کرتی ہیں، کیونکہ چند موکل نہیں چاہتے کہ کوئی خاتون جج ان کے مقدمے کی سماعت کرے۔
ایک وکیل اور اپنی ہم پیشہ خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والی جوزفین مائیکل کہتی ہیں کہ جنوبی سوڈان کی زیادہ تر آبادی ابھی تک اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ مرد وکلا ، خواتین وکلا کے مقابلے میں زیادہ بہتر طریقے سے مقدمات کی پیروی کرتے ہیں اور کیس جیت جاتے ہیں۔
ساؤتھ سوڈان اِن فوکس میں بات کرتے ہوئے جوزفین مائیکل کہتی ہیں کہ خواتین وکلا کو مالی امداد کی ضرورت ہے تا کہ وہ ملک بھر میں خواتین پر مبنی کمپنیاں قائم کر سکیں۔
تاہم اس مقصد کے حصول کیلئے انہوں نے اپنی ساتھ وکلا پر زور دیا کہ انہیں مسائل کا سامنا تو ہے، لیکن وہ حوصلہ نہ ہاریں۔
جنوبی سوڈان کی خواتین وکلا کی ایسوسی ایشن کی چیئر پرسن، سہیلا ڈینگ کا کہنا ہے کہ صرف عدالتی نظام میں ہی نہیں بلکہ ملک کے تمام شعبوں میں خواتین کی ترقی کیلئے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔