چین کے سرکاری میڈیا نے گذشتہ جمعرات کو اطلاع دی کہ چین کی بیشتر ٹریول ایجنسیوں نے فلپائن کے دورے معطل کر دیے ہیں۔ اس کی وجہ جزیروں کے ایک متنازع سلسلے کے بارے میں قوم پرستی پر مبنی الفاظ کی جنگ ہے جو روز بروز شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ چین نے فلپائن میں رہنے والے اپنے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ اس اختتامِ ہفتہ چین کے خلاف احتجاجی مظاہرے متوقع ہیں۔
امورِ خارجہ کے ترجمان ہونگ لئی نے جمعرات کے روز مطالبہ کیا کہ فلپائن چینی شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنائے ۔ انھوں نے کہا کہ فلپائن نے ملک کے اندر اور باہر لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ چین کے خلاف مظاہرے کریں ۔ اس سے چین کے لوگوں میں سخت تشویش اور رد عمل پیدا ہو ا ہے ۔ حکام کو چاہیئے کہ وہ فلپائن میں چین کے لوگوں اور اداروں کے حفاظت کے لیے موئثر اقدامات کریں۔
کشیدگی میں اضافہ اس وقت ہوا جب گذشتہ مہینے فلپائن کے ایک جنگی بحری جہاز نے Scarborough Shoal میں ماہی گیری کی چینی کشتیوں کو روکنے کی کوشش کی، لیکن چین کے نگرانی کرنے والے بحری جہازوں نے اسے ایسا کرنے سے روک دیا۔
چٹانوں کے یہ جزیرے جنہیں چین میں ہیانگ یانگ کہا جاتا ہے، فلپائن کے 230 کلومیٹر شمال مغرب میں، ساؤتھ چائنا سی میں واقع ہیں۔
منیلا کا کہنا ہے کہ یہ ریتیلا ساحلی علاقہ اس کے اقتصادی زون میں واقع ہے جب کہ بیجنگ نہ صرف ان جزیروں بلکہ ساؤتھ چائنا سی کے تقریباً تمام علاقے کا دعویدار ہے ۔
اس طرح دوسرے ملکوں سے جو اس علاقے میں معدنیات اور ماہی گیری سے مالا مال علاقوں کی دولت کے دعویدار ہیں، جیسے برونائی، فلپائن، ملائشیا، تائیوان اور ویتنام ، چین کا ٹکراؤ ہوتا ہے ۔
سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس علاقے پر چین کے اقتدارِ اعلیٰ کا دعویٰ کمزور ہے کیوں کہ اس کی بنیاد بین الاقوامی قانون پر نہیں بلکہ تاریخی دعووں پر ہے ۔ آسٹریلیا کی ڈیفنس اکیڈمی کے پروفیسر کال تھیئیر کہتےہیں کہ چین نے 2009 میں اقوامِ متحدہ کو ایک نقشہ دیا تھا جس میں اس کے علاقائی دعووں کا جواز پیش کیا گیا تھا ۔ اس نقشے میں سمندر میں نو لائینیں دکھائی گئی تھیں جو ایک دوسرے سے جڑی ہوئی نہیں تھیں۔
’’چین کو وضاحت کرنا ہو گی کہ ان بغیر جڑی ہوئی لائنوں کا کیا مطلب ہے، اور انہیں کس طرح جوڑا جائے گا، اور بین الاقوامی قانون میں ان دعووں کا کیا مطلب ہے ۔ لیکن وہ تاریخی بنیاد پر اس علاقے کے دعویدار ہیں۔ سمندر کے قانون کے بارے میں اقوامِ متحدہ کا کنونشن حال ہی میں بنایا گیا ہے ۔ لہٰذا آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ جب ہمارے پاس تاریخی اعتبار سے اس علاقے پر اختیارات تھے، تو اس وقت ہم نے بین الاقوامی قانون کے مطابق بھی ان پر دعویٰ کیا تھا کیوں کہ اس وقت بین الاقوامی قانون موجود ہی نہیں تھا ۔ چین کا دعویٰ مبہم ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ چین نے ایسا جان بوجھ کر کیا ہے کیوں کہ اس طرح ہر کوئی سوچتا رہتا ہے کہ چین کا مطلب کیا ہے ۔‘‘
سمندر میں حقوق کے جھگڑے نئے نہیں ہیں، اور ان کی وجہ سے ماضی میں چینی اور ویتنامی ماہی گیروں کی گرفتاریاں، بلکہ 1970 کی دہائی میں چین اور ویتنام کے درمیان سمندر میں مختصر جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔
لیکن جیسے جیسے چین وسائل پر اپنا حق جتانے کے لیے اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کا استعمال کرتا ہے، اور امریکہ اپنے اتحادی، فلپائن کی حمایت کرتا ہے اور اسے زیادہ اسلحہ فروخت کرتا ہے، علاقے میں زیادہ بڑے تصادم کے بارے میں تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے ۔
کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشیئن نیشنز یا آسیان، دس برس سے زیادہ عرصے سے ساؤتھ چائنا سی کے بارے میں ضابطۂ اخلاق کی تفصیلات پر مذاکرات کر رہی ہے ۔
اس علاقائی گروپ نے کسی سمجھوتے پر پہنچنے کے لیے جولائی کی ڈیڈ لائن مقرر کی ہے، جب تھائی لینڈ آسیان۔چائنا کوآرڈینیٹر بن جائے گا۔
بنکاک کی Chulalongkorn University کے تھیٹینان پونگسودھراک کہتے ہیں کہ چونکہ تھائی لینڈ کا اپنا کوئی دعویٰ نہیں ہے، اس لیے وہ مصالحت کرانے کی اچھی پوزیشن میں ہے ۔ لیکن بیجنگ اور آسیان دونوں کی طرف سے اس پر دباؤ پڑ رہا ہے ۔
’’چین دو طرفہ بنیاد پر آسیان کے ساتھ معاملہ کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ اور آسیان کا ساؤتھ چائنا سی کے بارے میں اپنا کوئی ایک ، مشترک موقف نہیں ہے۔ لہٰذا ہم دیکھیں گے کہ بیجنگ دوسرے ملکوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور پھر مذاکرات کرنے کا انداز اختیار کرے گا ۔ اس کے ساتھ ہی، آسیان کے ملک، خاص طور سے دعویدار ملک، جیسے فلپائن، ویتنام، ملائیشیا، یہ چاہیں گے کہ آسیان کوئی مشترکہ موقف پیش کرے ۔ اس طرح تھائی لینڈ پر دباؤ پڑے گا۔‘‘
سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ فلپائن اور ویتنام ایسے ضابطۂ اخلاق پر زور دے رہےہیں جس کا اطلاق سب پر ہوتا ہو، اور جس میں سمندر میں مختلف ملکوں کی جغرافیائی دعووں کی وضاحت بھی کی گئی ہو جب کہ چین ایسا اعلان چاہتا ہے جو کمزور اور مبہم ہو۔
آسیان کے دس رکن ممالک تمام فیصلے صرف اتفاقِ رائے کی بنیاد پر کرتے ہیں، اور چین کو بھی اس سمجھوتے کو قبول کرنا ہو گا۔ سیاسی تجزیہ کار تھیئر کہتے ہیں کہ ان حالات میں ایک ایسی کوڈ کا امکان کم ہے جو واضح ہو اور جسے نافذ کیا جا سکے، اور2002 ڈکلیریشن آف کنڈکٹ یا ڈی او سی جیسی اصولوں کی ایک کمزور سی فہرست کا امکان زیادہ ہے ۔
’’اگر جیسا کہ فلپائن چاہتا ہے، اس میں عمل درآمد پر مجبور کرنے کا کوئی طریقۂ کار نہیں ہے، تو پھر اسے معاہدے کا درجہ حاصل نہیں ہو گا۔ اس پر عمل کرنے کی پابندی ڈی او سی سے زیادہ نہیں ہو گی۔ جب آپ اس معاملے کی تہہ تک جاتے ہیں اور اس کا جائزہ لیتےہیں، تو پھر اس کی حیثیت رضاکارانہ سرگرمیوں کے ایک سیاسی اعلان سے زیادہ نہیں ہو گی۔‘‘
آسیان کے دوسرے رکن ممالک میں برما، انڈونیشیا، لاؤس اور سنگا پور شامل ہیں۔