وفاقی دارالحکومت کی معروف لال مسجد کے سابق نائب خطیب غازی عبدالرشید کے دو بیٹوں کو بدھ کو اسلام آباد کی ایک ذیلی عدالت میں پیش کیا گیا، عدالت نے معمول کی مختصر کارروائی کے بعد دونوں کو ایک روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔
عبدالرشید کے بیٹوں ہارون اور حارث کو منگل کی شب اسلام آباد کے ایک پوش سیکٹر ایف سِکس سے گرفتار کیا گیا تھا اور پولیس کے مطابق ان سے ایک پستول اور ایک فوجی وردی بھی برآمد کی گئی تھی۔
متعلقہ علاقے کے ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ پولیس غلام باقر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہارون اور حارث کو گرفتار کرنے کے بعد ان کے خلاف تھانہ کوہسار میں ’ایف آئی آر‘ درج کی گئی تھی۔
اسلام آباد کے قلب میں واقع لال مسجد کے خلاف 2007ء میں اس وقت آپریشن شروع کیا گیا جب اس سے وابستہ مدرسوں کے طلبا نے مسجد سے ملحقہ ایک سرکاری لائبریری پر ناجائز قبضہ کر لیا تھا اور بعد میں شہر کے مخلتف حصوں میں عام لوگوں کے خلاف بھی اسلام کے نام پر کارروائیاں کیں۔
حکومت نے ابتداء میں اس مسئلے کو پر امن طور پر حل کرنے کی کوشش کی مگر لال مسجد انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات ناکام ہونے کے بعد آپریشن شروع کیا گیا جس میں سکیورٹی فورسز کے ارکان سمیت لگ بھگ 100 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں غازی عبدالرشید بھی شامل تھے۔
فوج نے مسجد کے اندر سے بھاری مقدار میں اسلحہ اور بارود برآمد کیا تھا۔
آپریشن کے بعد مسجد کو دوبارہ تعمیر کر کے نمازیوں کے لیے کھول دیا گیا۔
غاری عبدالرشید کے بھائی مولانا عبدالعزیز جو لال مسجد کے خطیب رہے اب بھی اس مسجد میں متحرک ہیں۔
لال مسجد آپریشن کے دوران مسجد سے فرار ہوتے وقت مولانا عبدالعزیز کو گرفتار کر لیا گیا تھا لیکن بعد ازاں انھیں رہا کر دیا گیا۔
حال ہی میں حکومت نے دہشت گردی کے خلاف قومی لائحہ عمل کے تحت ملک بھر کے مدرسوں کی رجسٹریشن کے عمل کا آغاز کیا ہے اور تمام شر پسند عناصر کے خلاف بلا تفریق کارروائی کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
اگرچہ مذہبی شخصیات نے مدارس کی رجسٹریشن کے عمل پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے مگر منگل کو ہونے والی گرفتاری سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت نے اپنی کارروائیوں کا دائرہ وفاقی دارالحکومت تک بڑھا دیا ہے اور مدرسوں سے وابستہ بااثر افراد بھی اس سے مبرا نہیں۔