سانپوں والا گھر

سانپوں والا گھر۔ ریکس برگ ریاست آئیڈاہو

امریکی ریاست آئیڈاہو دنیا بھر میں آلو کی پیداوار کے لیے مشہور ہے۔مگر گذشتہ کچھ عرصے سے اس کی وجہ شہرت ریکس برگ شہر کے مضافات کا ایک گھر بنا ہوا ہےجس میں ہزاروں سانپ رہ رہے ہیں۔ مکان کا فرش، اس کی چھت، کمرے، دیواریں، پانی کی ٹینکی اور لان ، غرض کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں رنگ برنگے سانپ رینگ اور پھنکار نہ رہے ہوں۔ ان میں سے کسی بھی سانپ کی لمبائی دوفٹ سے کم نہیں ہے۔سابق مالک مکان اسے چھوڑ کر بھاگ چکاہے۔ دیکھنا یہ ہے اب وہاں کون آتاہے۔

امریکی ریاست آئیڈاہو کاایک گھر دنیا بھر کے سپیروں اور سانپوں میں دلچسپی رکھنے والوں کا منتظر ہے۔

دوایکٹر میں بنے ہوئےاس گھر میں پانچ بیڈ روم ہیں، جن میں اب کوئی اور نہیں صرف سانپ رہتے ہیں۔ اس گھر کا آخری مالک بن سیشنز کچھ عرصہ قبل اسے چھوڑ گیا تھا۔ بن کا کہنا ہے کہ وہ ،ان کی بیوی امبر اور بچوں پر سانپوں کی اس قدر دہشت بیٹھ گئی تھی کہ انہیں علاج کے لیے نفسیاتی معالج کے پاس جانا پڑا۔

گھر کے سابق مالک بن اور امبر

بن اور ان کی اہلیہ امبرنے جب پراپرٹی ڈیلر کے ساتھ پہلی بار اس مکان کو دیکھا تو انہیں محسوس ہوا کہ یہی ان کے خوابوں کا گھر ہے۔ خوبصورت سرسبز لان، پانچ بیڈ روم، لیونگ ایریا، کچن ، لانڈری، باتھ روم۔۔۔ سب کچھ ہی تو خوبصورت تھا۔ مکان نسبتا اونچی جگہ پر تھا ۔ وہاں سے انہیں اردگر کا سارا منظر بڑا بھلا لگا اور انہوں نے فوراً ہی اسے خریدنے کا فیصلہ کرلیا۔۔ ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مکان کی قیمت بہت کم تھی یعنی صرف ایک لاکھ اسی ہزار ڈالر۔ گویا کوڑیوں کے مول بک رہا تھا۔

بن کا اس طرف دھیان ہی نہیں گیا کہ مکان کی قیمت مارکیٹ سے اتنی کم کیوں ہے۔ تاہم پراپرٹی ڈیلر نے باتوں باتوں میں بتایا کہ پچھلا مالک مکان قرضے کی قسطیں نہیں دینا چاہتاتھا، اس لیے اس نے گھر چھوڑنے کے لیے سانپوں کا قصہ گھڑا،جس سے گھر کی قیمت گر گئی۔

بن سے قبل اس مکان میں نیل اورڈینسی رہ رہے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد انہوں نے مالک مکان اور پراپرٹی ڈیلر کے خلاف سانپوں کا گھر فروخت کرنے کا مقدمہ دائر کردیا ۔ جسے ایک سال کے بعد عدالت نے خارج کردیا۔

بن کا خیال تھا کہ آئیڈاہو جیسے پہاڑی علاقوں میں سانپ ہونا ایک عام سی بات ہے، لیکن وہ زہریلے نہیں ہوتے۔ اور وہ ان سے نمٹ سکتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ اپنے خوابوں کے گھر میں منتقل ہوگیا۔

سانپوں والا گھر

شروع کے دنوں میں انہیں کوئی زیادہ مسئلہ نہیں ہوا۔ کبھی کبھی اکا دکا سانپ نظر آجاتے تھے جسے وہ فوراً ہی مار دیتے تھے۔ پھر بن نے اپنا یہ معمول بنالیا کہ وہ بیوی بچوں کے اٹھنے سے پہلے بستر سے نکلتا اور پورے گھر کا چکر لگاتا۔ اگر کہیں کوئی سانپ نظر آتا تو اسے یاتو ہلا ک کردیتا، یا بھگا دیتا۔

مگر جسے ہی موسم سرد ہونا شروع ہواتو گھر میں سانپوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ اور پھر ایک دن ایسا بھی آیا کہ بن نے 42 سانپ مارے مگر وہ ختم نہیں ہوئے اور کمروں میں ادھر اُدھر رینگتے دکھائی دیتے رہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق بن کا کہنا ہے کہ سردی کی شدت میں اضافے کے ساتھ ہی گھر میں ہر طرف سانپوں کی پھنکاریں سنائی دینے لگیں۔ بیڈ روم، لیونگ روم، کچن ، لانڈری ، باتھ روم غرض کوئی جگہ ایسی نہیں تھی جہاں سانپ رینگ اور پھنکار نہ رہے ہوں۔ پورا گھر سانپوں کی ایک عجیب سی بو سے بھر گیا کہ سانس لینا مشکل لگنے لگا۔

سانپوں والا گھر

بن کہتے ہیں کہ پھر ہم نے گھر میں کھانا پکانا بند کردیا۔ پکاتے بھی کیسے، کھانے پینے کی چیزوں میں، درازوں میں، چولہے کے آس پاس سانپ نظر آتے تھے۔ ہم باہر جاکر کھانا کھانے لگے۔ اور پھر وہ دن بھی آ گیا کہ ہمیں گھر کے پانی کا استعمال بھی بند کرنا پڑا کیونکہ پانی کی ٹینکی میں بھی سانپ رینگنا شروع ہوگئے۔

سانپوں نے بن کے خاندان کی راتوں کی نیندیں چھین لیں۔ کیونکہ رات کے وقت چھت سے سانپوں کے رینگنے اور پھنکارنے کی آوازیں مسلسل آنے لگیں۔ ایک دن بن ہمت کر کے چھت کے اوپر ایٹک میں گیا تو وہ سانپوں سے بھرا ہوا تھا۔

بن کا کہنا ہے کہ ایک دن میں نے ایک دیوار کے کونے کی ایک لکڑی ذرا کھسکی ہوئی دیکھی ۔ جب اسے ہٹایا توپتا چلا کہ دیوار کا اندورنی حصہ سانپوں سے بھرا ہواتھا۔(امریکہ میں اکثر مکان لکڑی کے ہوتے ہیں، جن کی دیواریں اندر سے کھوکھلی ہوتی ہیں اور سردی سے محفوظ رکھنے کے لیے ان میں فوم یا کوئی انسولیشن بھردی جاتی ہے)۔

اندر کے ماحول سے گھبرا کر ایک بن سیشنز لان میں گیا تو گویا اس کی رگوں میں خون جم سا گیا۔ پودوں کے نیچے اور گھاس کے اندر ہر طرف سانپ رینگ رہے تھا۔

سانپوں والا گھر

ریاست آئیڈاہو کے محکمہ ماہری گیری اور شکاریات سے منسلک جنگلی حیات کے ایک ماہر راب کیولارو کا کہناہے کہ سانپ اور کئی دوسرے رینگنے والے جاندار سردیوں کے ایام بعض مخصوص جگہوں پر سو کر گذارتے ہیں اور موسم بہار شروع ہوتے ہی وہ خوراک کی تلاش میں دوسرے علاقوں کی طرف نکل جاتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ریکس برگ کا گھر ممکنہ طورپر ایک ایسے مقام پر تعمیر کیا گیا ہے جو سانپوں کی قدرتی سرمائی رہائش گاہ ہے اور قرب و جوار کے سانپ وہاں اپنی سردیاں گذارنے آتے ہیں۔

کیولارو کا کہنا ہے کہ جب تک اس علاقے کا آخری سانپ بھی زندہ ہے، وہ اپنی سردیوں کی نیند اور افزائش نسل کے لیے وہیں جائے گا۔

سانپوں کے ایک اور ماہر ڈیوس کا کہناہے کہ مادہ سانپ کے جسم سے ایک مخصوص بو خارج ہوتی ہے جو دو میل کے دائرے کے اندر موجود سانپوں کو اپنی جانب کھینچ لیتی ہے۔

بن کے جانے کے بعد بینک نے مکان ایک بار پھر بیچنے کی کوشش کی اور وہاں جنوری تک برائے فروخت کا بورڈ لگا رہا۔ بینک نے اس کی قیمت بھی ایک لاکھ نو ہزار تک گھٹا دی مگر کوئی خریدار نہیں آیا۔

مکان کی ایک حالیہ معائنہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اب وہاں سانپوں کی تعداد کئی ہزار ہوچکی ہے۔اتنے سانپوں کے ساتھ تو شاید کوئی سپیرا بھی نہ رہ سکے۔

بینک مکان بیچے گا یا گرا کر اس کا ملبہ بیچے گا، کوئی نہیں جانتا، لیکن کیولارو کا کہنا ہے کہ چاہے وہاں مکان رہے یا نہ رہے، سانپ آتے رہیں گے۔