جنوبی ایشیا کا باشندہ چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں رہ رہا ہو، چارپائی سے واقف ضرور ہوتا ہے کیونکہ چارپائی سے ان کی ثقافت جڑی ہوئی ہے ۔ لیکن کچھ برسوں سے جدید طرز زندگی نے جہاں کئی ثقافتی ورثوں کو مٹا دیا ہے وہاں چارپائی کوبھی شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ کراچی جیسے گنجان شہر وں میں جہاں ڈبہ نما خود رو فلیٹوں میں رہنے والے لوگوں کی اکثریت کو اپنے لیے جگہ بمشکل نصیب ہوتی ہے، بے چاری چارپائی کی جگہ کہاں سے آئے؟ یوں بڑے شہروں میں اس کا استعمال بہت کم ہوگیا ہے البتہ دیہات کی زندگی میں اب بھی چارپائی خاصی اہمیت رکھتی ہے۔
بڑے شہروں میں لکڑی سے بنی، بان یا نواڑ سے گندھی چارپائی ہوٹلوں تک محدودہوگئی ہے اسی لیے انہیں 'چارپائی ہوٹل' کہا جاتا ہے۔ عام طور پر چارپائی کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے خطرناک حشرات الارض یعنی "کھٹملوں" کا مرکز ہوتی ہیں۔ اب اگر منہ زور کھٹمل بے چاری چارپائی میں زبردستی گھس کر زندگی بسر کرتا ہے تو اس میں چار پائی کا کیا قصور!!!
کھٹملوں کو پناہ دینے کے جرم میں چار پائی کو نشان عبرت بنانے کےلئے مختلف حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ مثلاً چارپائی کو تپتی دھوپ میں کچھ گھنٹوں کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں شریف قسم کے کھٹمل تو بھاگ جاتے ہیں لیکن قبضہ مافیا طرز کے کھٹمل بھاگنے کے بجائے مقابلہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان شرپسند کھٹملوں سے نمٹنے کےلئے ان بچوں کی مدد لی جاتی ہے جن سے شیطان بھی پناہ مانگتا ہے، جو ہاتھوں میں ڈنڈے تھامے نمودار ہوتے ہیں اور کھٹملوں کے ساتھ چار پائی کا بھی برا حال کر دیتے ہیں۔ آخر میں پتہ چلتا ہے کہ نہ رہا بانس اور نہ بجے گی بانسری ۔
چارپائی کے بارے میں مختلف تصورات عام ہیں ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر چار پائی پر جوتوں سمیت بیٹھاجائے تو اس سے سانپ کو چارپائی پر چڑھنے کی اجازت مل جاتی ہے جو سوئے ہوئے شخص کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر چار پائی پر ٹانگیں لٹکاکر بیٹھا جائے اور ٹانگیں ہلائی جائیں تو نظر کمزور ہو جاتی ہے۔ یہ بھی مشہور ہے کہ اگر چار پائی پر دونوں ہاتھ سر کے پیچھے رکھ کر سویا جائے تو ماں باپ کا سایہ سرسے جلد اٹھ جاتا ہے۔
چار پائی بننے کےلئے عام طور پر چپٹی یا گول نائیلون یا بانس کی لکڑی کے بنے بانوں اور سوتی دھاگے سے بٹی رسی استعمال ہوتی ہے ۔ کسی زمانے میں مقامی لوگ چمڑے کی بنی رسی سے بھی چارپائی بنتے تھے مگر چمڑے کی رسی بنانا کافی محنت طلب اور مہنگا ہے لہذا اس کی قیمت بھی زیادہ ہوتی تھی ۔ اس کے علاوہ کھجور کے پتوں سے بنائی گئی ڈوری بھی اس مقصد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اور کپڑوں سے بھی رسی تیار کی جاتی ہے ۔
مہمانوں کےلئے رکھی جانے والی چار پائی کی شان و شوکت سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ آنے والے مہمان کی کٹیگری کیا ہے۔ 'اعلیٰ پائے' کے مہمانوں کے سامنے تو لوٹا اور ہاتھ دھونے والا برتن بھی چار پائی کے آگے حاضر ہو جاتا ہے، تولیہ بھی وہیں آجاتا ہے ۔
بزرگوں اور مہمانوں کے علاوہ سب سے کماؤ بیٹے کی چار پائی کی بھی الگ شان ہوتی ہے۔ تاہم جن پر ’کام کے نہ کاج کے، دشمن اناج کے‘ کا لیبل چسپاں ہوتا ہے ان کی چارپائی کی خستہ حالی دور سے ان کی حیثیت بتا دیتی ہے ۔
گاؤں دیہاتوں میں شادی بیاہ یا دیگر موقعوں پر سب سے زیادہ مانگ چار پائی ہی کی ہوتی ہےاور اس مانگ کو پورا کرنے کے لئے اکثر اوقات گاؤں کا ہنگامی اجلاس طلب کرکے سب سے چارپائیوں کی درخواست کی جاتی ہے ۔ وہاں ایسے موقعوں کے لیے ہر گھر میں الگ چار پائیاں رکھی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ چار پائی جس گھر میں جا رہی ہے اس سے دینے والے کے تعلقات کیسے ہیں۔ اگر تعلقات اچھے ہیں تو چارپائی بھی اچھی ورنہ جیسے تعلقات ویسی چار پائی۔
دیہاتی جرگوں میں بھی چار پائی کا بڑا عمل دخل ہے۔ جرگے کے تمام شرکاء چار پائیوں پر بیٹھتے ہیں ۔ بعض اوقات اگر کسی بات پر زیادہ اختلاف ہو جائے تو مخالف پارٹی کی دھلائی بھی چار پائی کے اوپر ہی کر دی جاتی ہے اور بات آگے بڑھ جائے تو چار پائی کو ہی توڑ کر اس میں سے ڈنڈے نکال لیے جاتے ہیں ۔ ۔۔ اوراگر بات بہت بڑھ جائے تو پھر ڈنڈے نکالنے کی زحمت بھی نہیں کی جاتی اور براہ راست چارپائی سے ہی حملہ کر دیا جاتا ہے۔