انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ سندھ میں انسانی حقوق کی صورت حال سے یہ تاثر ملتا ہے کہ "ریاستی ادارے یا تو موجود نہیں یا پھر وہ بے حد غیر موثر ہو چکے ہیں"۔
انسانی حقوق کمیشن کا کہنا ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے صوبے میں خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے۔ اسی طرح ریاست کو جبری گمشدگیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات اور لوگوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کا نہ کر پانے پر بھی جواب دینا پڑے گا۔
جمعے کو جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سندھ میں بھی انسانی حقوق سے متعلق وہی مسائل نظر آئے جو عام طور پر پورے ملک میں دیکھے جا رہے ہیں۔ ان میں پولیس کی حراست میں تشدد، بچوں کے خلاف تشدد، اقلیتوں کے خلاف امتیازی رویہ، آزادی اظہار رائے پر قدغنیں اور ماحولیاتی وسائل کا بگاڑ شامل ہیں۔
تاہم رپورٹ میں سندھ حکومت کی جانب سے تھرپارکر میں صحت کی سہولیات میں بہتری کو سراہا بھی گیا ہے۔
صوبے میں ہاریوں کی حالت زار
21 صفحات پر مشتمل انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ کے مطابق جبری مشقت پر نظر رکھنے والی بیشتر اضلاعی کمیٹیاں غیر فعال ہیں۔ جنہیں فوری طور پر انسانی اور مادی وسائل فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ مقاصد حاصل کیے جا سکیں جن کے لیے یہ کمیٹیاں بنائی گئی تھیں۔
رپورٹ میں یہ سفارش کی گئی ہے کہ ہاریوں پر مقامی سیاست دانوں کا غیر ضروری اثر و رسوخ ختم کیا جائے۔ اس بات کا براہ راست تعلق صوبے میں اراضیوں سے متعلق اصلاحات نہ کرنے سے ہے جو معاشی اور معاشرتی عدم مساوات کی اہم وجہ ہے۔
پورٹ میں حیدرآباد کے قریب موجود ہاریوں کے ایک کیمپ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہاں پینے کا صاف پانی، بجلی اور دیگر ضروریات زندگی موجود نہیں۔ جب کہ وہاں رہائش پذیر بہت سے افراد کے پاس قومی شناختی کارڈ بھی موجود نہیں۔
جبری گمشدہ افراد میں سے 51 کی نعشیں ملی ہیں
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ستمبر 2019 تک ملک میں جبری گمشدگی کے لئے کام کرنے والے کمیشن کو سندھ سے 1580 شکایات موصول ہوئیں، جن میں سے 583 افراد کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ واپس اپنے گھروں میں آ گئے ہیں۔ 30 کے لاپتا افراد حراستی مراکز میں ہیں۔ جب کہ 234 مختلف جیلوں میں قید ہیں۔ اسی دوران 51 گمشدہ افراد کی نعشیں بھی ملی ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن کے مطابق ایسے واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ بہت سے لوگ ڈر اور خوف سے ایسے واقعات کی رپورٹ نہیں کراتے۔
رپورٹ میں حکومت سندھ کو کہا گیا ہے کہ صوبے میں جبری گمشدگی سے متعلق تمام شکایات کی فوری اور آزادنہ تحقیقات کرائی جائیں جب کہ جبری گمشدگی کے واقعات کا شکار ہونے والے افراد کے اہل خانہ کو ہر قسم کے دباؤ سے بھی بچایا جائے۔
نصاب سے اقلیتوں کے خلاف نفرت آمیز مواد خارج کیا جائے
انسانی حقوق کمیشن کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے سرکاری نوکریوں میں غیر مسلموں کے لئے مختص 5 فیصد کوٹے پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔ تاہم یہ نوکریاں ہر شعبے میں مختص کی جائیں جب کہ اقلیتوں کو تعلیم حاصل کرنے کے بہتر مواقع پیدا کرنے کے لئے بھی اقدامات کئے جائیں۔
انسانی حقوق کمیشن کی سفارشات میں یہ بھی شامل ہے کہ صوبے میں نصاب کا جائزہ لے کر نصابی کتابوں میں موجود نفرت آمیز مواد کی اسکروٹنی کی جائے اور انہیں مذہبی تعصبات سے پاک کیا جائے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبے میں ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد میں آباد ہے لیکن اس کے باوجود مذہب کی جبری تبدیلی کو اب تک جرم قرار نہیں دیا گیا ہے۔ اور اس بارے میں کی گئی تمام کوششیں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی ہیں۔
آزادی اظہار رائے پر قدغنیں بڑھ گئی ہیں
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبے میں سول سوسائٹی میں یہ تاثر عام ہے کہ ریاست، ان تنظیموں کی شہریوں کی بہتری کے لئے کئے گئے کاموں کو "مائیکرومینج" کرنا چاہتی ہے۔ جب کہ میڈیا پر بھی شدید دباؤ محسوس کیا جا رہا ہے۔
انسانی حقوق کمیشن نے صوبے میں پولیس حراست میں ہلاکتوں، بچوں کے خلاف جرائم اور تشدد اور تجاوزات ہٹانے کی مہمات میں انسانی حقوق کے عدم تحفظ پر بھی خدشات کا ظہار کرتے ہوئے صوبائی حکام سے ضروری اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ جب کہ آزادی اظہار اور بالخصوص طلبہ کو یونین سازی کا حق دینے اور ایسا ماحول پیدا کرنے کے لیے کہا گیا ہے جس میں صحافی کسی خوف و خطر کام کر سکیں۔
رپورٹ میں اس بات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے کہ صوبائی حکومت اور بلدیہ عظمیٰ کراچی نے تجاوزات کے خلاف مہم سے متاثرہ افراد کی بحالی کے لئے اب تک کوئی پالیسی تیار نہیں کی۔ اس آپریشن سے ایک لاکھ سے زائد افراد کا روزگار متاثر ہوا اور تین سے پانچ لاکھ افراد نشانہ بنے۔ رپورٹ میں تجاوزات کے خلاف مہم کا نشانہ بننے والے چھوٹے دکانداروں اور تاجروں کو معاوضے کی ادائیگی اور ان کی آبادکاری کو یقینی بنانے کا کہا گیا ہے۔
انسانی حقوق کمیشن کی شریک چیئرپرسن عظمیٰ نورانی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی صوبے میں گذشتہ 12 سال سے بغیر کسی وقفے سے اقتدار میں ہے۔ اور انسانی حقوق سے متعلق پارٹی کی پالیسی بڑی حد تک واضح ہے۔ لیکن ان کے خیال میں اصل مسئلہ خراب طرز حکمرانی ہے۔
عظمیٰ نورانی کے مطابق صوبہ سندھ مذہبی اور ثقافتی لحاظ سے بھی انتہائی برداشت کا حامل صوبہ رہا ہے جس نے ہمیشہ سے تنوع کو قبول کیا ہے۔ لیکن یہاں کمزور طرز حکمرانی کے باعث ایسی قوتیں مضبوط ہوئی ہیں جو اس خلا کو سیاسی طاقت حاصل کرنے کے بعد پر کرنا چاہتی ہیں۔
سندھ حکومت کا موقف
وزیر اطلاعات سندھ، سعید غنی نے انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی حکومت صوبے میں انسانی حقوق کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے کوشاں ہے اور رپورٹ میں کئی جگہوں پر حکومتی اقدامات کی تعریف بھی کی گئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار پیپلز پارٹی کی حکومت نے کابینہ میں شیڈولڈ کاسٹ کے کئی افراد کو رکن بنایا گیا جب کہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی بھی پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایوان میں پہنچے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی مظلوموں کے ساتھ کھڑی ہے۔ ہم نے ایسے واقعات کو روکنے کے لئے قانون سازی اور ضروری اقدامات کئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پارٹی کے رکن اسمبلی کے خلاف لوگوں کو جبری تبدیلی مذہب کا الزام لگایا گیا تو پارٹی نے اگلے انتخابات میں انہیں ٹکٹ نہیں دیا۔
سعید غنی کے مطابق ان کی حکومت نے کسانوں کو یونین سازی کا حق دیا ہے جب کہ خواتین ہاریوں کو ان کے جائز حقوق کا دینے کا بل اسٹینڈنگ کمیٹی سے پاس ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جہاں صوبائی حکومت کی خامیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کی گئی ہے وہیں کامیابیوں پر انہیں سراہنا بھی چائیے۔