پروگرام ’جہاں رنگ‘ میں میزبان بہجت جیلانی نے ہیومن رائٹس کمشن آف پاکستان کے سربراہ پروفیسر مہدی حسن، انسانی حقوق کے علمبردار رضا رومی اور برسراقتدار حکومت کے سینیٹر لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عبدالقیوم سے بات کی۔
سوال یہ ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکنے کے لئے ذہنی رجحان میں تبدیلی اور زیادہ آگہی زیادہ ضروری ہے یا پھر سخت سزاؤں کے ذریعے اس صورت حال کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔؟
اس پر رضا رومی کہتے ہیں کہ پبلک پریشر کے ساتھ ساتھ اداروں کی کارکردگی اور سزائیں ، دونوں مل کر ہی مُثبت تنائج پیدا کر سکتے ہیں کیونکہ ہمارے عدالتی نظام میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کا سوچ کا اندا ز بدلنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ وہ اس بات کو سمجھ سکیں کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں سنگین نوعیت کا جرم ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ جب تک عوام کی طرف سے دباؤ نہیں ہو گا تو ریاستی ادارے بھی اس بارے میں کچھ نہیں کریں گے۔
رضا رومی کہتے ہیں کہ یہ تمام کام قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے ہونا چاہئیے۔ اُن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مضبوط جمہوری حکومت ہی انسانی حقوق کا مسئلہ حل کر سکتی ہے۔
ہیومن رائٹس کمشن کے سربراہ مہدی حسن کہتے ہیں کہ پاکستان میں مذہبی انتہاپسندی بہت زیادہ ہے اور اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی بھی اسی لئے ہوتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس بارے میں حکومت کا کردار ہمیشہ معذرت خواہانہ ہوتا ہے۔ اس لئے انسانی حقوق کی صورت میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔
مہدی حسن کہتے ہیں کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اکثر حکومتی اداروں کی طرف سے ہوتی ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ پاکستان کی موجودہ حکومت ایک کمزور حکومت ہےاور بہت سے شعبوں میں اس حکومت کی رٹ نظر نہیں آتی۔ ان میں انسانی حقوق اور مذہب کے شعبے بھی شامل ہیں۔
برسر اقتدار حکومت کے سینیٹر لفٹننٹ جنرل عبدالقیوم نے حکومت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے معاملےپر حکومت کی پالیسی زیرو ٹالرنس کی پالیسی ہے اور دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی کو روکنے کے لئے بھرپور اقدامات اختیار کئے جا رہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اس مسئلے پر عالی سطح پر اقوام متحدہ کے منشور کے تحت کام کرنے کی ضرورت ہے۔
سینیٹر عبدالقیوم نے اس بات سے اتفاق کیا کہ پاکستان میں مزید عدالتی اصلاحات کی ضرورت ہے کیونکہ اگر ہمارا عدالتی نظام مضبوط ہوتا تو ہمیں فوجی عدالتوں کے قیام کی طرف نہ جانا پڑتا۔
مزید تفصیلات کے لیے اس لنک پر کلک کریں۔