سندھ میں ’یوم ثقافت‘ کو تہوار کی حیثیت حاصل

رواں سال اس حوالے سے ایک اور اہم بات یہ ہوئی کہ کراچی کے امریکی قونصل خانے میں بھی یوم ثقافت کے حوالے سے ایک اہم تقریب منعقد ہوئی جس سے ’یوم ثقافت‘ کو چار چاند لگ گئے

سنہ 2009 سے اتفاقی طور پر شروع ہونے والے ’سندھ کلچرل ڈے‘ نے صوبے میں رسمی طور پر تہوار کی سی حیثیت حاصل کرلی ہے، اور ہر سال، اس کے انعقاد میں بڑھتے ہوئے رجحان کو دیکھتے ہوئے، محسوس ہوتا ہے کہ اب شاید اسے کبھی ترک نہ کیا جا سکے۔

رواں سال، اس حوالے سے ایک اور اہم بات یہ ہوئی کہ کراچی کے امریکی قونصل خانے میں بھی یوم ثقافت کے حوالے سے ایک اہم تقریب منعقد ہوئی، جس سے ’یوم ثقافت‘ کو چار چاند لگ گئے۔

ابتدا میں، اسے ’سندھی ٹوپی اجرک ڈے‘ کا نام دیا گیا۔ لیکن، اب اسے ’سندھی ثقافت کا دن‘ کہا جانے لگا ہے، جس میں لوگ روایتی لباس پہنتے، لوک گیت گاتے، رقص کرتے اور ہر چھوٹے بڑے شہر، قصبے، اور دیہات میں ریلیاں نکالتے ہیں۔ اب صوبے بھر میں یہ دن بہت جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔

اس بار، مختلف تنظیموں، قوم پرستوں اور سیاسی جماعتوں نے اس حوالے سے صوبے بھر میں ثقافتی ریلیاں نکالیں۔ عوام کا کہنا ہے کہ یہ دن ہمارے لئے اب عید کی طرح ہی خوشیاں لاتا ہے۔ اسی بار سے آسٹریلیا میں مقیم سندھی عوام نے بھی پہلی مرتبہ یہ دن پورے جوش و جذبے کے ساتھ منایا۔

یوم ثقافت پر مرد اور بچے اہتمام کے ساتھ سندھ کی مخصوص ڈیزائن والی ٹوپی کے ساتھ ساتھ سفید شلوار قمیص زیب تن کرتے ہیں، جبکہ گلے میں روایتی سندھی اجرک بھی پہنی جاتی ہے۔ خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ سندھی طرز کی تراش خراش اور خصوصی رنگوں والے کپڑے پہنتیں ہیں۔کچھ خواتین اجرک کے پرنٹ والے کپڑے پہننا بھی پسند کرتی ہیں۔

شہر شہر، گاوٴں گاوٴں ریلیاں نکالی جاتی ہیں، جن میں مرد و خواتین سندھ کے لوک گیتوں پر رقص کرتے ہیں، ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں اور میٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں۔

صوبے کا شاید ہی کوئی شہر اور قصبہ ایسا ہوگا جوثقافتی جھنڈوں، جھنڈیوں اور بینرز سجایا نہ گیا ہو، جبکہ جشن منانے والوں میں سب سے زیادہ تعداد اسکول کے بچوں اور کالج و یونیورسٹیز کے طلباء و طالبات کی تھی جو ہر شہر اور ہر جگہ ’جئے سندھ جئے، سندھ وارا جیئن‘ جیسے ڈھیروں لوک گیتوں پر رقص کرتے نظر آئے ۔

یوم ثقافت سندھ کے حوالے سے ریلیوں کے ساتھ ساتھ اس دن کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے سیمینارز، میوزیکل پروگرامز، ڈراموں اور اسٹیج پلیز، ٹیبلو اور ادبی محفلوں کا اہتمام کیا گیا۔

کراچی میں بھی جشن کے خصوصی اہتمام
کراچی میں دو مقامات پر سب سے زیادہ سندھی یوم ثقافت کا اہتمام ہوتا ہے۔ کراچی پریس کلب کے سامنے اور عزیزآباد کے لال قلعہ گراوٴنڈ میں جس کا اہتمام سندھ کی دوسری بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کرتی ہے۔ ہر بار کی طرح، اس سال بھی متحدہ کے کارکنوں کے ساتھ ساتھ عام افراد، جن میں ایک بڑی تعداد خواتین کی تھی، انہوں سندھ کی ثقافتی اجرک، شال اور ٹوپیاں پہن کر سندھی گانوں پر رقص کیا۔

تقریب سے ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے بھی خطاب کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ سندھ مثالی صوبہ بن سکتا ہے، اگر اس کے وسائل اسی کی عوام تک مخصوص کردیئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ یوم ثقافت سرزمین سندھ کو ہر خطرے سے محفوظ بنانے کے عزم کا متقاضی ہے۔

پریس کلب میں ایک رات قبل جیسے ہی رات کے بارہ بجے ادبی شخصیات، صحافیوں، سول سوسائٹی کے اراکین اور سیاسی رہنماوٴں نے شمعیں روشن کیں جبکہ اتوار کو گلشن اقبال، گلشن حدید، لیاری، کیماڑی، اور شہر کے دیگر علاقوں سے ریلیاں نکالیں جو کراچی پریس کلب پہنچیں جہاں باقاعدہ جشن منایا گیا۔ شام میں آرٹس کونسل میں بھی اس حوالے سے ثقافتی سرگرمیاں انجام دی گئیں۔

سندھ کا محکمہ ثقافت بھی ’یوم ثقافت سندھ ‘منانے میں کسی سے پیچھے نہیں رہا۔ وزیراعلیٰ سندھ کی خصوصی معاون برائے ثقافت و سیاحت اور پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کی سیکریٹری اطلاعات شرمیلا فاروقی نے محکمہ کو یوم ثقافت کو بہت سرگرم کیا ہوا ہے۔ محکمے میں اس حوالے سے متعدد سرگرمیاں ترتیب دی گئی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سندھ امن کی سرزمین اور صوفیوں کا مسکن ہے، جنہوں نے ہمیشہ امن کے پیغام کو پروان چڑھایا۔ یکجہتی اور برداشت کو فروغ دیا۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ ہر ذریعے سے سندھی ثقافت کو آگے بڑھانے پر عمل پیرا ہے۔

سندھ میں ’یوم ثقافت‘ پر جشن



امریکی قونصل خانہ کراچی میں بھی یوم ثقافت کا اہتمام
کراچی کے امریکی قونصل خانے میں بھی یوم ثقافت کا اہتمام کیا گیا، جس میں پیانو، طبلہ، گیٹار، شہنائی اور دیگر آلات موسیقی نے ملکر وہ رنگ بکھیرے کہ مزہ دوبالا ہوگیا۔ خصوصی تقریب کو ’آل پاکستان میوزک کانفرنس‘ کا نام دیا گیا جو قونصل جنرل کی پرانی رہائش گاہ پر اتوار کی شام ہوا۔

تقریب میں امریکی پیانسٹ کم بال گیلیاگر نے میوسیقی کی دھیمی دھیمی دھنیں چھیڑیں تو شام کا سماں ناقابل فراموش ہوگیا۔ شہنائی کی سنگت پر طبلے کے سر سجے اور نئی کمپوزیشن سننے کو ملیں۔

کم بال نے اپنے گہرے رنگ کے سوٹ کے ساتھ کندھے پر اجرک سجائی ہوئی تھی جو اس دن کی علامت کو اور بھی زیادہ واضح اور اہم بنا رہی تھی۔

کم کے ساتھ ساتھ پاکستان کے نامور شہنائی نواز استادعبداللہ خان نے پرفارم کیا۔ ان کے ساتھ طبلے پر سنگت دی محمود علی نے۔