پاک بھارت مذاکرات میں سیاچن پر پیش رفت ہوئی ہے: تجزیہ کار

پاک بھارت مذاکرات میں سیاچن پر پیش رفت ہوئی ہے: تجزیہ کار

سیاچن پر کافی گراؤنڈ ورک ہو چکا ہے۔ لیکن، بد قسمتی سے دونوں ملکوں کے فوجی اداروں میں اعتماد کا فقدان ہے:ونود شرما

دفاعی تجزیہ کار جنرل (ر) عبد القیوم نے کہا ہے کہ سیاچن گلیشئر کا علاقہ پاکستان کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے، جو ایک تکون پر واقع ہے، جو پاکستان کے علاوہ ایک طرف چین تو دوسری طرف بھارت سے ملا ہوا ہے۔

’وائس آف امریکہ‘ سے بات چیت کرتے ہوئےاُنھوں نے کہا کہ یہ علاقہ پاکستان کے بالکل شمال میں اور قراقرم پاس کے قریب کا علاقہ ہے جہاں اُن کے الفاظ میں بھارت گُھس کر دنیا کی بلند ترین پہاڑی چوٹی کے-ٹو کے قریب جا پہنچا، دوسری طرف قراقرم کو خطرہ ہے جو پاکستان کو چین سے ملاتا ہے۔

جب اُن سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان بھارت کے سکریٹری سطح کی بات چیت میں یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے، تو جنرل (ر) عبد القیوم نے کہا کہ’ہوسکتا ہے‘ اگر اُن کا ’مائینڈ سیٹ‘ اُسے تبدیل کرنے کا ہے، اور یہ سوچا جائے کہ دنیا کے غریب ملکوں کے غریب عوام جو چھ ارب کی آبادی ہے اُس میں سے کوئی ڈیڑھ ارب اِس خطے میں رہتے ہیں۔

اُن کے الفاظ میں، ’جنگ سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ دونوں طرف سے بڑا نقصان ہوتا ہے۔ معاشی لحاظ سے پاکستان کی طرف سے بھی، لیکن وہ کم ہے۔ انڈیا کی لائف آف کمیونیکیشن بڑی ہے اور وہاں ہلاکتیں بھی انتہائی موسم میں زیادہ ہوتی ہیں۔‘

کارگل پر ایک سوال پر اُنھوں نے کہا کہ اگر سیاچن کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے تو کارگل پر کوئی خاص تنازعہ نہیں ہے۔

بھارت سے تعلق رکھنے والے ممتاز تجزیہ کار وِنود شرما نے سیاچن پر پیش رفت کے حوالے سے سوال پر کہا کہ یہ بات سچ ہے کہ اب تک باہمی مذاکرات میں اِس مسئلے پر کافی پیش رفت ہوئی ہے۔

اُن کے الفاظ میں ’اِس معاملے پر گراؤنڈ ورک ہو چکا ہے۔ لیکن، بد قسمتی سے جو دونوں ملکوں کے فوجی ادارے ہیں اُن میں اعتماد کا فقدان ہے۔ جسے بھارت میں کچھ لوگ صحیح نظر سے نہیں دیکھ رہے۔۔۔ اِس پر کتنی بات آگے بڑھے گی، آج کے دِن میں کوئی زیادہ پُر اعتماد نہیں۔۔۔ کیونکہ، بھارت اور پاکستان کے درمیان بہت سے ایسے مسئلے ہیں جِن پہ عوام کی توجہ زیادہ ہے۔ ۔۔ جب تک وہ حل نہیں ہوتے۔۔۔مشکل مسائل پر بات آگے بڑھانے سے سیاسی طور پر حکومتوں کو دقت ہوسکتی ہے۔‘

دنیا کے بلند ترین محاذ کے بارے میں ونود شرما نے کہا کہ اِس کے حل سے دونوں کو فائدہ ہوگا۔ اُن کے الفاظ میں ’ہم جو پیسا خرچتے ہیں اس محاذ پر اتنی اونچائی پراپنے فوجیوں کو بھیج کر جہاں سب سے بڑا دشمن اُن کا موسم ہوتا ہے۔۔۔ایسا کوئی طریقہ نکالنا چاہیئے کہ سیاچن پر ہم دونوں ممالک کا کوئی سمجھوتا ہوجائے۔‘

تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ یہ ایک خواب ہے، جو شاید ادھورا ہی رہے یعنی پورا نہ ہونے والا خواب!

تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ سنیئے: