پاکستان کے بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ بیشتر علاقوں میں اِن دنوں مختلف ادویات کی قلت ہے۔ دوا ساز کمپنیوں کا کہنا ہے کہ خام مال کی قیمتوں میں اضافے کے باعث ادویات کی تیاری اور پرانی قیمت پر فروخت ان کے لیے ممکن نہیں ہے۔دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی موجودہ شرح کے باعث ادویہ ساز اداروں کو قیمتوں میں اضافے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
حکومت ہر سال یکم اگست کو تمام ادویہ ساز اداروں کی مختلف مصنوعات کی قیمتوں میں 10 فی صد تک اضافے کی منظوری دیتی ہے۔
اس وقت پاکستان میں جن ادویات کی قلت سب سے زیادہ ہے ان میں بخار کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی ’ پیناڈول‘ گولی سرِ فہرست ہے۔
خیال رہے کہ دوائیوں کی قیمتوں سے متعلق پاکستان میں 2018 میں بننے والی پالیسی کے مطابق اگر کسی دوائی کی قیمت بڑھانا مقصود ہو، تو اسے ہارڈ شپ کیس کہا جاتا ہے، جس کے لیے ڈریپ میں ایک پرائسنگ بورڈ (قیمتیں مقرر کرنے والا سیکشن) موجود ہے۔وہ کیس پالیسی بورڈ میں جاتا ہے، جس کے بعد کابینہ اُس کا فیصلہ کرتی ہے۔
ادویات کی قیمتوں میں رد و بدل، ادویات کی رجسٹریشن اور ادویہ ساز اداروں کی منظوری سمیت تمام معاملات پاکستان ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) کی ذمہ داری ہے۔
پاکستان کی مقامی کمپنیاں دوائیوں کی قیمتوں میں سالانہ اضافہ نہ ہونے کے باعث تحفظات کا شکار ہیں اور کاروباری خسارے کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتی ہیں۔
پاکستان کی مقامی ادویہ ساز کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین اور مقامی دوا ساز کمپنی ’نیوٹرو فارما‘ کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) حامد رضا کہتے ہیں کہ پاکستان میں بننے والی ادویات کا تقریباً سارا خام مال درآمد کرنا پڑتا ہے، جس کی لاگت ڈالر کی قدر سے جڑی ہوئی ہے۔ پاکستان میں ڈالر کی قدر میں اضافہ ایک بہت بڑی وجہ ہے جس سے غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ مقامی کمپنیوں کے کاروبار پر بھی اثر پڑا ہے۔
SEE ALSO: پنجاب میں کینسر کے مریضوں کو مفت ادویات کی فراہمی پھر معطلوائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈالر کے ساتھ پیٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتیں بھی ادویات کی قلت کا باعث بن رہی ہیں۔ پیٹرولیم مصنوعات اور ڈالر کی قیمتوں میں اضافے کے باعث عالمی مارکیٹ میں ادویات کی تیاری میں استعمال ہونےوالے خام مال کی قیمتیں بھی بڑھ چکی ہیں۔جس کے باعث اُن کی تنظیم نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ادویات کی تیاری کے سلسلے کو فی الحال مؤخر کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مہنگے داموں خام مال خرید کر سستے داموں ادویات فروخت کرنے سے اُنہیں نقصان ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ اُن کی تنظیم حکومت کی جانب سے طے کردہ مارکیٹ ریٹئل پرائس (ایم آر پی) پر عمل نہیں کر سکتی۔
پنجاب میں ادویات کو بازاروں میں فروخت کرنے والے دکان داروں کی نمائندہ تنظیم پنجاب کیمسٹ ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ملک شاداب احمد بتاتے ہیں کہ ملک کی موجوہ صورتِ حال کے باعث ادویات کی طلب اور رسد میں اچانک اضافہ ہوا ہے، جس کی ایک وجہ وہ سیلاب کو سمجھتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ملک شاداب احمد نے کہا کہ ملک میں سیلاب کی وجہ سے لوگوں نے اچانک بڑی تعداد میں پیناڈول اور پیراسٹامول سمیت دیگر ادویات خریدنا شروع کر دی ہیں، جس کے باعث دوائیوں کی رسد متاثر ہوئی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ سیلاب کی وجہ سے مخیر لوگوں نے بخار، کھانسی، پیٹ درد سمیت دیگر ادویات بڑے پیمانے پر خرید کر سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بھیجنا شروع کر دی ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ ادویہ سازی کے زیادہ تر کارخانے کراچی میں ہیں۔ اِنہیں میں پیناڈول بنانے والے کارخانہ بھی شامل ہے۔ سیلاب کے باعث شاہراہیں بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ ٹرکوں کے ذریعے پہلے جو ادویات عام طور پر چار سے پانچ دن میں کراچی سے لاہور پہنچ جاتی تھیں وہ اَب 10 سے 12 روز میں پہنچ رہی ہیں۔
SEE ALSO: خام مال پر 17 فی صد ٹیکس: دوا ساز کمپنیوں نے فیکٹریاں بند کرنے کی دھمکی دے دیلاہور کے جناح اسپتال کے ایک سینئر ڈاکٹر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ فارما سوٹیکل کمپنیوں نے ادویات کی تیاری میں کسی قسم کا کوئی تعطل آنے نہیں دیا، وہ باقاعدگی سے ادویات بنا رہی ہیں البتہ اُنہیں بازار میں فروخت کے لیے نہیں بھیج رہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر ڈاکٹر نے دعویٰ کیا کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ادویہ ساز ادارے اِس انتظار میں ہیں کہ حکومت دوائیوں کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دے اور وہ فوراً تیار شدہ دوائیاں بازار میں لے آئیں۔
اُن کے بقول پیناڈول اور پیرا سٹامول سمیت تمام دوائیوں کی مصنوعی قلت پیدا کی جا رہی ہے۔
سینئر ڈاکٹر بتاتے ہیں کہ سیلابی صورتِ حال کے باعث ملک میں ڈینگی اور بخار کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، جس کے باعث بخار سے بچاؤ کی ادویات کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔
دوسری جانب حکومت ادویات کی قیمتوں میں اضافے کے حق میں نہیں ہے۔
بدھ کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پاکستان ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے 40 کے قریب دوائیوں کی قیمتوں میں اضافے کی سمری پیش کی۔ جسے حکومت نے مسترد کر دیا۔
کابینہ کے اجلاس کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے صحت غلام قادر پٹیل کا کہنا تھا کہ ملک میں دوائیوں کی کوئی قلت نہیں ہے۔
پینا ڈول کا نام لے کر اُن کا کہنا تھا کہ اگر بازار میں یہ دوائی دستیاب نہیں ہے، تو اِسی دوائی کا فارمولا کسی اور صورت میں دستیاب ہے۔ عوام اُسے خرید سکتے ہیں۔
SEE ALSO: پاکستان: کیا چین کی جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ دوا اومیکرون کے خلاف بھی مؤثر ہو سکتی ہے؟پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین حامد رضا کہتے ہیں کہ حکومت ہر برس تمام ادویہ ساز کمپنیوں کو ادویات کی قیمتوں میں سات فی صد سے لے کر 10 فی صد تک اضافے کی اجازت دیتی ہے۔
ان کے بقول اُن کی تنظیم کی اِس سلسلے میں حکومت سے کئی بار مذاکرات کر چکی ہے حکومت کہتی ہے کہ وہ دوائیوں کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری نہیں دے سکتی۔ اِس سے حکومت کو سیاسی طورپر نقصان ہو گا۔
اُن کے مطابق حکومت کہتی ہے کہ ملک میں پہلے ہی بہت مہنگائی ہے۔ دوائی کی قیمتوں میں اضافے سے عام آدمی مزید پریشان ہو جائے گا۔
محکمۂ صحت کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں اِس وقت مقامی ادویہ ساز کمپنیوں کی تعداد 750 جب کہ 24 غیر ملکی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ غیر ملکی کمپنیوں کی تعداد گزشتہ 17 برس میں 46 سے گھٹ کر 24 ہوئی ہے۔
محکمہ صحت کے مطابق پاکستان میں کام کرنے والی 44 غیر ملکی دوا ساز کمپنیوں میں سے کچھ تو یہاں سے اپنا کاروبار ختم کر کے جا چکی ہیں جب کہ اُن میں سے کچھ کمپنیاں دوسری کمپنیوں میں ضم ہوگئی ہیں۔ مقامی ادویہ ساز کمپنیوں میں سے 100 کمپنیاں مقامی طور پر پیداوار کا تقریباً 97 فی صد پیدا کرتی ہیں جب کہ باقی 650 کمپنیوں کا اس پیداوار میں حصہ صرف تین فی صد ہے۔
پنجاب کیمسٹ ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ملک شاداب بتاتے ہیں کہ موجودہ صورتِ حال کے باعث بہت ساری ادویات کی قلت ہے۔ اگر کسی ہفتے کوئی دوائی پوری بھی ہو جاتی ہے، تو دو سے تین روز بعد کسی اور دوائی کی قلت پیدا ہو جاتی ہے، جس سے صارفین کو مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔