وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے حوالے سے کشیدگی پر کہا ہے کہ ’’ہم فوجی آپشن کو زیر غور نہیں لانا چاہتے، کیونکہ یہ جہالت ہے‘‘۔
انھوں نے کہا کہ، ’’ہم امن کے حامی ہیں۔ جنگ کو خود کشی کے مترادف سمجھتے ہیں۔ لیکن، ہم دفاع کا پورا حق رکھتے ہیں۔ 27 فروری کو جب بھارت نے جارحیت کی، تو ہم نے دفاعی حق استعمال کیا‘‘۔
دورہ چین سے واپسی پر اسلام آباد میں وزیر خارجہ نے نیوز کانفرنس میں کہا کہ ’’کسی بھی قسم کے ملٹری آپشن کی کوئی تجویز نہیں ہے، اور ہم اسے جہالت سمجھتے ہیں‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ’’ہم اپنے دفاع کا حق استعمال کریں گے۔ لیکن، کسی قسم کی جارحیت نہیں کریں گے۔ تاہم، اگر ہم پر جارحیت کی گئی تو اس کا جواب دیا جائے گا۔‘‘
دورہ چین کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’’کشمیر کی صورتحال میں ہمارا سب سے اہم قدم چین کا عزم اور ارادہ دیکھنا تھا۔ چین کے بغیر، عالمی سطح پر کوئی اقدام نہیں اٹھائیں گے۔ ہمیں ان کی آمادگی مل گئی، جس کے بعد دیگر اہم ممالک سے رابطے شروع ہیں۔ وزیر اعظم نے بھی کئی ممالک کے سربراہان سے رابطہ کیا ہے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ کل سرینگر کے قریب کرفیو کی خلاف ورزی ہوئی اور آج لداخ میں کرفیو کی خلاف ورزیاں ہوئیں۔ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں کرفیو کو چھٹا روز ہے اور اب خوراک کی قلت کی اطلاعات ہیں۔ کشمیری عوام کو ادویات کی قلت کا بھی سامنا ہے۔ کرفیو میں نرمی کے بعد، مزید خون خرابے کا خدشہ ہے۔ اگر حالات خرابی کی طرف جاتے ہیں، تو ہیومن رائٹس کونسل میں بھی جا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے مزید آپشنز پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔‘‘
بقول ان کے، ’’بھارت دنیا کو تاثر دے رہا ہے کہ یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔ لیکن، پاکستان اس معاملے پر بات کرنے کا استحقاق رکھتا ہے۔ جغرافیائی تبدیلی کے لیے طاقت کا استعمال کیا گیا۔ اس معاملے پر سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کا بیان حوصلہ افزا ہے‘‘۔
شاہ محمود کا کہنا تھا کہ بھارت میں موجود پاکستانیوں کے حوالے سے ابھی تک کوئی پریشان کن خبر نہیں آئی۔ تاہم، وہاں موجود پاکستانیوں کو احتیاط کرنا چاہیے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم اقوام متحدہ کے اجلاس میں نیویارک جائیں گے۔ موجودہ صورتحال میں ان کے جانے کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔
بقول ان کے، ’’وزیر اعظم عمران خان اقوام متحدہ جائیں گے اور ٹھوس انداز میں کشمیر کے حوالے سے پاکستان کا مقدمہ پیش کریں گے‘‘۔
بھارت کی طرف سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد سے اب تک دونوں ممالک میں تناؤ موجود ہے اور پاکستان نے سخت اقدامات کرتے ہوئے بھارتی ہائی کمشنر کو واپس بھجوانے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے ساتھ دو طرفہ تجارت معطل کر دی گئی ہے جبکہ ’سمجھوتہ ایکسپریس‘ اور ’دوستی بس سروس‘ بھی بند ہو چکی۔ دونوں ممالک کے درمیان روابط کم ترین سطح پر آ گئے ہیں۔