ایک 29 سالہ بھارتی خاتون نے، جسے اپنے لڑکپن میں جنسی کنیز کے طور پر فروخت کر دیا گیا تھا، وزیر أعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھا ہے جس میں یہ زور دیا گیا ہے کہ وہ ان سینکڑوں عورتوں کو، جو عصمت فروشی کے مراکز میں پھنسی ہوئی ہیں اور ہر روز جنسی زیادتی کے عمل سے گذرتی ہیں، اس جہنم سے نکالنے میں مدد دیں۔
ہندی زبان میں لکھے گئے دو صفحات پر مشتمل خط میں خاتون نے خود کو تاوی کے نام سے متعارف کرایا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسے بہلا پھسلا کر اغوا گیا اور پھر ممبئی کے چکلے میں پہنچا دیا گیا۔
تاوی کا کہنا ہے کہ جب وہ قحبہ خانے میں پہنچی تو اس کی عمر 17 سال تھی ۔ اس سے چھ سال تک جسم فروشی کرائی جاتی رہی، حتی کہ پولیس نے اسے بازیاب کر کے اس اذیت سے نجات دلائی۔
یہ خط ان دنوں بھارت کے میڈیا کی شہ سرخیوں میں ہے۔
بھارت ایک ایسا ملک ہے جہاں دنیا بھر میں سب سے زیادہ افراد غلامي کی زندگی گذار رہے ہیں۔ حالیہ عرصے میں اس ملک نے جدید دور کی غلامي کے خاتمے کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں۔
تاوی نے خبررساں ادارے روئیٹرز کو بتایا کہ مجھے مدد ملی اور میں اس جنہم سے باہر نکل آئی۔ میرے جیسی بہت سی لڑکیاں اب بھی یہ عذاب بھگت رہی ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی اس قابل نہیں ہے کہ وہ کسی مدد کے بغیر اس قید سے نکل سکے۔ میں نے ان لڑکیوں کی مدد کے لیے وزیر أعظم کو خط لکھا ہے۔
دنیا بھر میں لگ بھگ 4 کروڑ 60 لاکھ افراد غلامي کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ بہت سی لڑکیوں اور عورتوں سے زبردستی جسم فروشی کرائی جا رہی ہے۔ بڑی تعداد میں لوگ جبری مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔
سن 2016 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اکثر واقعات میں مزوروں کو قرض دے کر پھانس لیا جاتا ہے اور ان کے پاس اپنے قرض چکانے کے لیے سوائے غلامي کے کوئی راستہ باقی نہیں رہتا۔
دنیا بھر میں غلامي کی زندگی بسر کرنے والوں کی 40 فی صد تعداد بھارت میں ہے ۔ بھارتی غلاموں کی گنتی ایک کروڑ 80 لاکھ سے زیادہ ہے۔
ان میں سے اکثریت کا تعلق غریب اور دیہاتی گھرانوں سے ہے۔ انہیں اچھی ملازمت یا شادی کا جھانسا دے کر پھانسا لیا جاتا ہے، لیکن اس کہانی کا اختتام گھریلو ملازم، یا ٹائلٹ صاف کرنے والے کارکن یا ٹیکسٹائل مزور کے طور پر فروخت کیے جانے سے ہوتا ہے اور زیادہ تر لڑکیوں کو جسم فروشی کے اڈوں پر پہنچا دیا جاتا ہے۔
یہ واضح نہیں ہے کہ خواتین کی کتنی تعداد کو جنسی کنیزیں بنایا جاتا ہے لیکن ایک مطالعاتی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں ان کی تعداد دو کروڑ تک ہے اور ان میں سے آدھی خواتین کی عمریں 18 سال سے کم ہیں۔
تاوی جو اب ممبئی کی ایک گارمنٹ فیکٹری میں کام کرتی ہیں کہتی ہیں کہ میں انسانی اسمگلنگ کا نشانہ بنی ہوں۔ میری زندگی دوزخ بن گئی تھی۔ مجھے مارا پیٹا جاتا تھا اور جانوروں سے بھی بدتر سلوک روا رکھا جاتا تھا۔ میں سوچا کرتی تھی کہ ایک روز میں اسی قحبہ خانے میں مر جاؤں گی اور مجھے باہر نکلنا نصیب نہیں ہو گا۔ لیکن جب مجھے مدد ملی تو میں وہاں سے نکل آئی ۔ اب بھی بہت سی عورتیں اور لڑکیاں مدد کی منتظر ہیں ۔ میری وزیر أعظم سے درخواست ہے کہ ان کی مدد کی جائے۔
ایک سرکاری عہدے دار نے، جس نے یہ خط نریندر مودی تک پہنچایا تھا، کہا ہے کہ وزیر أعظم نے خط کا جواب دینے کا وعدہ کیا ہے۔