سات پاکستانی نوجوان 'ڈیانا ایوارڈ' جیتنے میں کامیاب

''وبا کے دنوں میں لوگ گھروں سے باہر نہیں نکل سکتے تھے۔ ان کی تفریح کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، جس کے باعث کئی لوگ ذہنی صحت (مینٹل ہیلتھ) کے مسائل سے دوچار ہوئے۔'' یہ کہنا ہے 18 سالہ عائشہ شیخ کا جنہیں گزشتہ ہفتے 'دی ڈیانا ایوارڈ' سے نوازا گیا۔

'دی ڈیانا ایوارڈ' برطانیہ کی شہزادی لیڈی ڈیانا کی یاد میں قائم ہوا جس کے تحت سیکڑوں افراد کو یہ ایوارڈ مختلف کیٹگریز میں دیا جاتا ہے۔ اس ایوارڈ کا بنیادی مقصد نئی نسل کی جانب سے تعلیم اور بچوں میں شعور اُجاگر کرنے والے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

رواں سال سات پاکستانی نوجوانوں عائشہ شیخ، ایمان جواد، یمنہ مجید، عزت اللہ، محمد عاصم معصوم زبیر، محمد حمزہ وسیم اور حسن اشرف کو تعلیم اور طب کے شعبوں میں شعور اجاگر کرنے پر 'دی ڈیانا ایوارڈ' سے نوازا گیا۔

'دی ڈیانا ایوارڈ' برطانوی حکومت نے 1999 میں اس مقصد کے لیے قائم کیا تھا تاکہ ویلز کی شہزادی کو خراج عقیدت پیش کیا جا سکے۔

'پاکستان میں مینٹل ہیلتھ کو کوئی بیماری کے طور پر نہیں لیتا ہے'

عائشہ شیخ

اس ایوارڈ کو حاصل کرنے والی عائشہ شیخ کہتی ہیں کہ بد قسمتی سے پاکستان میں مینٹل ہیلتھ کو کوئی بیماری کے طور پر نہیں لیتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس بیماری کے بعد جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو جاتا ہے جس سے معاشرہ تیزی سے عدم استحکام کا شکار ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

ان کا ایک پروجیکٹ 'یو سے-وی ہیئر' یعنی آپ بولیں اور ہم سنیں کے ذریعے سیکڑوں افراد کی بروقت کاؤنسلنگ کی گئی کیوں کہ وبا کے دوران تنگی اور پریشانی کے باعث یہ لوگ خود کشی کی جانب مائل ہو سکتے تھے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عائشہ شیخ نے بتایا کہ وبا کے دنوں میں جب انہوں نے دیکھا کہ بیروزگاری میں تیزی سے اضافے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی پڑھائی میں دلچسپی ختم ہو رہی ہے تو انہوں نے طلبہ کے لیے کچھ آن لائن کورسز شروع کیے تاکہ وہ وبا کے دنوں میں فعال کردار ادا کر سکیں۔

عائشہ کے مطابق انہوں نے اس دوران طلبہ کو ڈیجیٹل مارکیٹنگ، بزنس، کانٹینٹ رائٹنگ، سوشل میڈیا کا استعمال، بحث و مباحثہ، کمیونی کیشن اور لیڈرشپ کے کورسز کرائے۔

صوبہ سندھ کے ضلع سکھر سے تعلق رکھنے والی عائشہ شیخ کہتی ہیں کہ وبا کے دنوں میں انہوں نے عوام کو راشن بھی مہیا کیا۔ تاہم ان کی اس امداد کا طریقہ کافی مختلف تھا۔ کیوں کہ انہوں نے امداد کے ساتھ ان لوگوں کو کچھ ہنر بھی سکھایا تاکہ آئندہ ماہ سے وہ کسی کی محتاجی کے بغیر خود کما سکیں۔

عائشہ 'دی ڈیانا ایوارڈ' ملنے پر بہت خوش ہیں۔ وہ اس ایوارڈ کو اپنے والد سے منسوب کرتی ہیں کیوں کہ ان کے بقول ان کی سرپرستی کے بغیر یہ سب ممکن نہیں ہو سکتا تھا۔

تاہم ان کے بقول انہیں یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ اس ایوارڈ کے لیے رواں سال صرف سات پاکستانیوں کا انتخاب ہوا۔ ان کے مطابق پاکستان کے لوگ بہت محنت کش ہیں۔

عائشہ کو امید ہے کہ اگلے برسوں میں پاکستان سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ انہیں اس بات کا دکھ ہے کہ وہ اس ایوارڈ کو وصول کرنے کے لیے تقریب میں براہ راست شریک نہیں ہو سکیں بلکہ انہیں ورچوئلی اس میں شرکت کرنا پڑی۔

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے 23 سالہ عزت اللہ

عزت اللہ

دی ڈیانا ایوارڈ حاصل کرنے والے 23 سالہ عزت اللہ کا کہنا ہے کہ یہ ایوارڈ ایسے نوجوانوں کو دیا جاتا ہے جنہوں نے معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے مثبت کردار ادا کیا ہو۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 2017 میں انہوں نے ایک غیر سرکاری تنظیم کی بنیاد رکھی۔ تب سے لے کر اب تک تین ہزار سے زائد لڑکے اور لڑکیوں کو اسکول میں داخلہ دلوا چکے ہیں۔

ان کے بقول کرونا کی عالمی وبا کے دوران انہوں نے دو پراجیکٹس شروع کیے جس کے تحت انہوں نے ایک ہزار سے زائد گھرانوں میں راشن تقسیم کیا۔

مزید برآں ایک دوسری اسکیم کے تحت عزت اللہ نے دو سو سے زائد افغان پناہ گزین بچیوں کو اسکول میں داخلہ دلوایا۔ ساتھ ہی انہوں نے کرونا کے دوران گھر گھر تعلیم کی آگاہی مہم بھی چلائی۔

انہوں نے متعدد گھروں میں بورڈ اور اسٹیشنری کا سامان بھی مہیا کیا تاکہ بچوں کو گھر میں کلاس روم جیسا ماحول مل سکے۔

عزت اللہ کا کہنا ہے کہ انہیں خوشی ہے کہ وہ بلوچستان سے پہلے شخص ہیں جنہیں اس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کے بقول وہ چاہتے ہیں کہ ان کی دیکھا دیکھتی مزید نوجوان بلوچستان سے آگے آئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ صوبہ بلوچستان میں تعلیم کی آگاہی اور شرح خواندگی میں اضافے میں فعال کردار ادا کرسکیں۔

لاہور سے تعلق رکھنے والی 16 سالہ ایمان جواد

ایمان جواد

رواں سال منعقد ہونے والے دی ڈیانا ایوارڈ میں لاہور سے تعلق رکھنے والی 16 سالہ ایمان جواد بھی شامل ہیں۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس ایوارڈ کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ اس ایوارڈ کے لیے کام نہیں کرتے بلکہ یہ ایوارڈ آپ کے کام کو سراہتے ہوئے دیا جاتا ہے۔

اس ایوارڈ کے لیے ایمان جواد کا انتخاب 1200 سے زائد افراد کو ضروری طبی امداد فراہم کرنے پر کیا گیا۔

ان کے بقول، وہ بچپن سے ہی اپنی والدہ، جو کہ ایک ڈاکٹر ہیں، کے ہمراہ 'برن وارڈ' میں جایا کرتی تھیں۔ جہاں وہ جھلسے ہوئے افراد کی کیفیت دیکھ کر خوف اور صدمے میں مبتلا ہو جاتی تھیں کیوں کہ ان افراد کے لیے جھلسنے کے بعد ضروری گارمنٹس (کپڑے) کی فراہمی کے بندوبست کی بہت کمی ہوتی تھی۔

ایمان جواد کے مطابق ان حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انہوں نے مستقبل میں تمام حاجت مندوں کو مفت گارمنٹس فراہم کرنے کا فیصلہ کیا۔

وہ اب تک 1200 سے زائد جھلسے ہوئے افراد کو گارمنٹس فراہم کر چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ گارمنٹس اسپیشل قسم کے کپڑے سے بنائے جاتے ہیں جو باہر سے منگوایا جاتا ہے۔

ایمان جواد کے مطابق بد قسمتی سے پاکستان میں جھلسے ہوئے افراد کے لیے اسپتالوں کے ساتھ ان کے علاج کی سہولتوں کی بھی کمی ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ مستقبل میں اپنی خدمات کے دائرہ کار کو مزید وسعت دیں۔