مواخذے کے حق اور مخالفت میں سینیٹروں کی تقاریر

ریبلیکن پارٹی کے اکثریتی قائد

امریکی سینیٹروں نے منگل کو ایوان میں اس بارے میں تقاریر کیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو عہدے سے ہٹایا جائے یا نہیں۔ شاید اس وقت صدر ٹرمپ خود اسٹیٹ آف دی یونین کے خطاب کی تیاری کررہے ہوں گے جسے وہ رات کانگریس ارکان کے سامنے پیش کریں گے۔

سینیٹروں کی تقاریر مواخذے کے مقدمے کا باضابطہ حصہ نہیں تھیں۔ لیکن بدھ کو جب وہ مواخذے کے حتمی مرحلے میں ووٹ دیں گے تو امکان یہی ہے کہ صدر ٹرمپ کو بری کردیں گے۔

سینیٹ میں اکثریت رکھنے والی ریپبلکن پارٹی کے قائد مچ میک کونل نے آج کی کارروائی میں نئے ثبوت پیش کرنے یا شہادت دینے کی گنجائش نہیں رکھی تھی۔ انھوں نے کہا کہ مواخذے کے الزامات درست نہیں تھے جن کی بنیاد پر کسی صدر کو عہدے سے ہٹایا جاسکے۔

ایوان نمائندگان نے دسمبر میں صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کے حق میں ووٹ دیا تھا، جس میں ان پر اختیارت کے غلط استعمال اور کانگریس کی کارروائی کی راہ میں رکاوٹ بننے کے الزامات لگائے تھے۔

آئین میں کانگریس کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ جرائم اور نامناسب رویے کے الزامات ثابت ہونے پر صدر کو عہدے سے ہٹاسکتی ہے۔

مقدمے کی دو ہفتے سے جاری کارروائی کے بعد منگل کو استغاثہ میں شریک ڈیموکریٹ ارکان اور وکلائے صفائی، دونوں نے زوردار دلائل پیش کیے۔

میک کونل کے بیان کے فوراً بعد ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر چارلس شومر نے کہا کہ اگر امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ خود فیصلہ نہیں کرتے کہ صدر کون ہو، گورنر کون ہو، سینیٹر کون بنے لیکن ایک غیر ملک ہمارے انتخابات میں یہ کردار ادا کرنے کی کوشش کرے تو پھر اسے جمہوریت کے خاتمے کا بندوبست سمجھا جائے۔

مواخذے کی کارروائی میں صدر ٹرمپ پر الزام ہے کہ انہوں نے یوکرین کے صدر سے اپنے سیاسی حریف جو بائیڈن اور ان کے بیٹے کے خلاف بدعنوانی کے الزام کی تفتیش کا مطالبہ کیا تھا۔ بائیڈن کا بیٹا یوکرین کے توانائی کے ادارے میں ملازم تھا۔

صدر ٹرمپ نے مبینہ طور پر یوکرین کے لیے 391 ملین ڈالر کی فوجی امداد روک دی تھی لیکن بعد میں اسے بحال کردیا تھا۔ بائیڈن خاندان کے خلاف کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا۔